عورت،حجاب و عفاف، بے پردگی کے اسباب اور راہ حل

 

عورت،حجاب و عفاف، بے پردگی کے اسباب اور راہ حل

سیدہ شمائلہ رباب رضوی

ریسرچ   اسکالر شاہ عبداللطیف یونیورسٹی  خیرپور





Abstract

Islam enjoys such a high pedestal of glory and pinnacle as it does have the teachings of rights and liberty/freedom for every living being to such an extent as even animal rights are part of the teachings of Islam.  Then how is it possible that women rights are not included in its teachings and it deprives women of their rights by keeping a hurdle in the form of hijab?  Ever son of Adam, by nature, is a Muslim, and all men and jinns, with respect to being the progeny of Adam and Eve, are equal. God, in His Eloquent Book, Himself reiterates,

"If any do deeds of righteousness - be they male or female - and have faith, they will enter Heaven, and not the least injustice will be done to them."

Surah Al Nisa Verse: 124

While this verse manifests that neither men nor women are to be deprived of their rights, how can God deprive a woman of her rights by enjoining her to adopt the practice of hijab (God forbidden)

This is not the case at all, because Islam dovetails with human nature, and hijab is the dignity of a woman. Then how can this idea strike even one's subconscious that God while conferring glory on women in her role as a mother, render her dysfunctional and dependent on men by imposing hurdles in the form of hijab. This is impossible. Instead, men have made the guardians of women. A woman becomes precious and rare in hijab the way world's most precious pearl becomes rare in a shell. Hijab is not at all a hurdle. Instead, it is mandatory/compulsory for her grace, modesty and glory. Hijab is not all about hiding oneself in an attire. It is an important part of the teachings of Islam. Hijab is never a hurdle in the way of a woman's success. It is rather a means to strengthen and elevate her faith. Many women in hijab have attained such worldly status as non- hijabis cannot even imagine/ dream of.  But to our bad luck, some anti- Islamic elements made all women who are far away from Quran and Sunnah, their agents, and misguided them in name of women rights and persuaded them to be anti- Islamic. But these insane women are not aware of the fact that the rights and freedom /liberty that they are demanding - far better rights, freedom, respect and dignity were conferred upon them fourteen hundred years ago in the form of Quran and Sunnah. But alas! Our rivals are lucky that in the present era, we are not following the spirit of Qur'an and the teachings of Islam. We, considering the Quran an Islamic and divine book, read it under the guidance of a scholar, and then wrapped and put it on the shelf.  Though we " use" it on the occasions of illnesses, death, marriage, and besides using it for swearing in courts, we also cram it in Ramadhan, yet because of our being unaware of the essence / spirit of the teachings of Islam, a time has come that a woman is demanding in a wrong manner the rights that she already possesses/ is having/ enjoying. And she considers hijab which is the symbol of dignity, modesty and purity- a hurdle, instead of necessity.

خلاصہ    :

                   علمی کام کسی بھی عنوان سے ہو، اس کے فائدے سے کسی کو انکار نہیں ہےلیکن  کچھ موضوعات  ایسے ہوتے ہیں جن پر مسلسل کام کی ضرورت  ہوتی ہے  حجاب  اور پردےکے نام پر مختلف               زاویوں سے کام ہوچکا ہے مگردور  حاضرمیں جو صورت حال آٹھ مارچ  وومن ڈے کے فتنے کے نام سے منظرِ عام پر آئی ہے         اس نے ملک خداداد پاکستان میں ایک  عجیب منظر بپا کر دیا  جس کے نتیجے میں گھر کی زینت بر سرِ بازار نکل کھڑی ہوئی ہیں   حجاب کی سختی سے مخالفت  کرتے ہوئے وہ بھی نہایت شرانگیز، فتنہ انگیز، غیر اخلاقی اور غیر شرعی نعروں کے ساتھ ، جس نے چار دیواری میں موجود خواتین کو  اپنے وجود سے شرمندہ ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ "عورت،حجاب و عفاف، بے پردگی کے اسباب اور راہ حل" کے حوالے سےموضوع کےانتخاب کرنے کا سبب یہ ہی ہےکے دور حاضر کی  انجان عورت کو تعلیماتِ  اسلامی کی اصل روح کی مدد سے انہیں یہ باور کروایا جائے کہ جو چیز وہ  سرِ راہ آکر مانگ رہی ہیں  خداوندعالم نے وہ سب ان کو سر بلندی ،عظمت  و عفت کے ساتھ بہت پہلے ہی عطا کر دی ہے  بس ہمیں اسے سمجھنے کی دیر ہے جب ان کی توجہ اسلامی تعلیمات کی اصل روح کے ساتھ ان سے متعارف کروائی جائے گی تو یقیناً وہ اپنے اصل رتبے و مقام سے روشناس ہوجائیں گی۔معاشرے میں اپنا اتنا بلند وعظمت والا مقام دیکھ کر خود بھی معاشرے کو سر بلندی و عظمت کی جانب لے کر جائے گی کیونکہ یہ اس کی سررشت میں شامل ہے۔ عورت جو مادر پدر آزاد ہونا چاہتی ہے وہ واپس اپنے خول میں لوٹ جائے گی۔عصر حاضر کے ترقی یافتہ افراد چونکہ مذہب اسلام کو چودہ سو سال پرانا مذہب جانتے ہیں اس لئے حجاب اور تعلیمات اسلامی کو بوسیدہ اور دقیا نوسی کہتے ہیں  اس تاثر کو غلط ثابت کرنا ہےاورپوری دنیا پر ظاہر کرنا ہے اسلام اور اسلامی تعلیمات ہر دور کے لئے تازہ ہیں۔اسلام دشمن ایجنٹوں کی یہ سازش  ناکام ہو جائے گی کیونکہ   حجاب کو قدامت پسندی قرار دے کر فرانس،ہالینڈ اور ڈنمارک میں حجاب کی سختی سے ممانعت ہے ساتھ ہی ساتھ جرمنی اور دیگر مغربی ممالک میں بھی حجاب ممنوع قرار دینے کی سازش جاری ہے  ۔حجاب کے موضوع پر کام کر کے ساری دنیا کو حجاب کی ضرورت سے آگاہ کیا جائے گا۔ اس ہی وجہ کو مد نظر  رکھ کر اس موضوع کا انتخاب کیا۔تاکہ دور حاضر کی  خواتین  یہ جان سکیں  کے اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو عورت کو سب سے زیادہ حقوق ،عزت و عفاف ،احترام وآزادی دیتا ہے اس کی لاتعداد مثالیں   ہیں جن کا سلسلہ حضرت حوا سے شروع ہوا اور آج تک جاری ہےلہذا ایسی شخصیات کے بارے میں تحقیق کرنا اور ان کی شخصیت کے مختلف گوشوں کو روشن کرنا نہایت ہی ضروری ہے تاکہ ہماری آنے والی نسلوں کو اپنے حقوق اور عظیم ہستیوں کے بارے میں معلومات ملے اور اپنی زندگی کو سنوارنے کے لئے ان شخصیات کےرہنما اصولوں سے فائدہ اٹھائیں اور یہ جان سکیں کہ حجاب  عورت کی زندگی میں رکاوٹ نہیں ایک ضرورت ہے جو اس کو  کامیابی کی سیڑھیوں پر چڑھنے سے روکتا نہیں بلکے سہارا دیتا ہے اور دین و دنیا دونوں جہانوں کی کامیابیوں کا ضامن  ہوتا ہے۔      کسی بھی عمارت کی مضبوطی کا انحصار اس کے  ستونوں پر ہوتا ہے اسی طرح ایک مضبوط و سر بلند معاشرے کا انحصار  اس کی عورت پر ہے  ایک بہت پرانی مثل مشہور ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے  بلکل اسی طرح معاشرے کی کامیابی کا دارو مدار عورت پر ہوتا ہے کیونکہ ایک  باشعور، ذمےدار، فرض شناس،وفادار اور تعلیم یافتہ عورت کا مطلب فرد واحد نہیں ہوتا اس کا پورا خاندان ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنی نسل میں اپنے اوصاف منتقل کرے  گی جو نسل در نسل قوموں میں رائج ہوجاتے ہیں۔ جس زمانے میں کوئی قوم  عورتوں کے حقوق کی قائل ناتھی قرآن کریم نے سب سے پہلے حقوق نسواں کی بنیاد رکھی اور اپنے  کلام پاک میں یوں فرمایا کہ :" وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ[1]

"اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے۔ "

کلیدی الفاظ: عفاف، حجاب،مخالفین،اسلام

مقدمہ:

اہلِ مغرب میں شاید آزادی کا حقییقی مفہوم فرد کو اخلاقی اور مذہبی قدروں سے آزاد کرنا ہے نہ کہ آزادی سے ہمکنار کرنا ۔ اس لیےاہلِ مغرب مسلمانوں کو ان کی مذہبی شناخت سے محروم کرنے اور خواتین کی آزادی کے نام پر پردے   و حجاب کے خلاف نہ جانےکیسی کیسی مہم چلاتا رہتا ہے۔ سوچا جائے تو بے  حجابی یا عریانیت اس دور کی یادگار ہے جب انسان تہذیب و تمدن اور شعور سے انجان برہنہ گھوماکرتا تھا۔ جب اس نے تہذیبی و تمدنی ترقی کی تو اپنے بدن کو ڈھانپا۔ آج اسی ”ترقی“کے نام پر انسان برہنگی پر اتر آیا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ”حجاب “ علامت ہے عورت کے وقار کا ، حیا و عفاف کا ، نسوانیت کا ، اعلی اخلاق و کردار کا ۔ اسے کسی قسم کی قیدسے منسوب کرنا بالکل غلط ہے۔ دینِ اسلام عورت کی عزت و آبرو کا تحفظ چاہتا ہے اسلیے اسے” حجاب“ کرنے کا حکم دیتا ہے۔

جدید دور کی روشن خیالی نے عوام الناس کے ذہن میں یہ بات پیدا کردی ہے کہ اسلام چونکہ چودہ سو سال پرانا مذہب ہے اس لیے اس پر عمل پیرا ہوکر آج کی مسلمان عورت معاشرے کا کارآمد فرد نہیں بن سکتی، کیونکہ اس کا حجاب اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ مگر میرے نزدیک حجاب عورت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ، اگر میں کہوں کہ یہ میرا نہیں بلکہ تمام مسلمان خواتین کا نقطہ نظر ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ آیا ہمارے نزدیک ترقی ہے کیا؟ اگر ہمارے نزدیک ناکافی لباس پہن کر الیکٹرونک یا پرنٹ میڈیا کے اشتہارات کے لیے کام کرنا ترقی ہے،کسی بھی محفل میں جاذب نظر بن جانا ترقی ہے، اپنے  پہناوے   کو کسی اداکارہ یا کسی ماڈل گرل کے مشابہ بنا لینا ترقی ہے، اگر ہماری نظر میں ترقی یہ ہے کہ کپڑے کم سے کم ہوتے چلے جائیں بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوں لیکن  حجاب و پردہ تو دل کا ہونا چاہیے۔ تو بہت معذرت کے ساتھ، یہ ترقی نہیں بلکہ تاریکی ہے، جہالت ہے۔ ہم مغربی دنیا کی خواتین کی رودادیں پڑھ سکتے ہیں جنھوں نے قبولِ اسلام کے بعد اسلام اور حجاب کو اپنے لیے نعمت قرار دیا اور وہ اسلام کے دائرے میں داخل ہی اس لیے ہوئیں کہ اسلام حجاب و عفاف  کی صورت انہیں ایک محافظ عطا کرتا ہے اور سب سے اہم نکتہ کیا ہمارے دل امہا ت المومنین اور   دخترِ رسولﷺ  سے نعوذ باللہ بڑھ کر ہیں ؟  جبکہ وہ عظیم ہستیاں حجاب کا سختی سے خیال رکھتی تھیں۔ دور حاضر میں باحجاب  عورتیں  بلند و کامیاب ترین   درجوں اورمقامات پر ہر ہر کونے کونے  میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں اور حجاب کسی صورت میں ان کے لئے رکاوٹ نہیں ہے۔یہودی لابیوں نےدنیا بھرکے یہود پرمشتمل ١٨٩٢ء میں سوئزر لینڈ میں ایک زبردست میٹنگ  کی۔جس میں اسلام کی پر زور نشرو اشاعت پربنداوراس دین حنیف کی بڑھتی مقبولیت پرقابو پانے کے لئے دو قراداد منظورکی گئیں:ایک یہ کہ مسلم عورتوں کی گودوں سے اسلام کوخالی کردیا جائے اورانہیں گھروں سے باہرنکال دیاجائے ۔ دوسرے یہ کہ انہیں بے حجاب کردیاجائے ۔ چناچہ اس شیطانی منصوبہ کے نفاذکی انتھک کوششیں کی گئیں ہیں۔ جسکا نتیجہ حجاب عورت کی ضرورت یا رکاوٹ  جیسے سوالات کا پیدا ہونا ہے۔جبکہ قرآن مجید کی نص قطعی اور واضح حکم  حجاب ہے۔

وَلْيَضْرِ‌بْنَ بِخُمُرِ‌هِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ
''
اورچاہئے کہ عورتیں اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیاں (دوپٹے) ڈالے رہیں ۔[2]

ٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَ‌ٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَـٰبِيبِهِنَّ ۚ ذَ‌ٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَ‌فْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ
''اے نبیؐ! اپنی بیویوں ، اپنی بیٹیوں او رمسلمان عورتوں سے کہہ دیں کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں ۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے

تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور اُنہیں کوئی نہ ستائے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔''(۳)[3]

عورت تعا رف:

خداوند کریم نے جب  کائنات کی تخلیق مکمل کر لی تو  خداوند عالم نے اپنی  سب سے  پیاری مخلوق کی تخلیق   کاآغاز کیا  تو اولاًتخلیق آدم ؑ ہوئی  اور ان کی ساتھی کے طور پر حضرت حواؑ کو خلق کیا گیا تاکہ آپ اکیلے اور اداس نہ رہیں۔  دراصل  مخلوق خدا کو   دو مختلف   صنف میں دنیا میں بھیجا گیا   ایک مرد اور دوسری صنف نازک  یعنی عورت  جو کہ خداوند کریم کی ایک خوبصورت اور   حسین تخلیق ہے ۔ عورت کا مادہ مونث ہے ۔

عربی زبان میں عورت کو ’’ نساء ‘‘ ، کہتے ہیں اور نساء کے لغوی معنی ’’ چھپی ‘‘ ، ہوئی چیز کے ہیں اور پردہ کا مطلب بھی چھپانا ہے ۔ عورت اور پردہ کا مطلب ایک ہونے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ان دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے ۔ اور اسلام میں ایک عورت پر مکمل پردہ ضرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس طرح ڈھانپ کر رکھے تاکہ اسکے جسم کے خدو خال واضح نہ ہوں اور اسلام نے یہاں تک کہ عورتوں کو گھر میں بھی وقار کے ساتھ رہنے کی تلقین کی ہے۔ کائنات کی سب سے نازک ترین صنف "عورت" جس میں خدا ایک انسان کو تخلیق کرتا ہے۔ اُس کی تصویر بناتا ہے۔عورت کبھی ہابیل کی ماں بن کر حوّا کے روپ میں ظاہر ہوئی، کبھی اسمائیلؑ کی ماں بن کر حاجرہ کے روپ میں ظاہر ہوئی۔ کبھی عیسیٰ کی ماں بن کر مریمؑ کے روپ میں ظاہر ہوئی۔ کبھی فرعون کے گھر میں آسیہ بن کر موسیٰ کی پرورش کی۔ کبھی بلقیس بن کر سلیمان کے محل میں آئی۔ کبھی آمنہ   بن کر محمدؐ کی ماں کہلائی کبھی فاطمہ بنتِ اسد بن کر علیؑ کی ماں بنی۔ کبھی خدیجہ بن کر محمدؐ کی زوجیت میں اپنا سارا مال دین پر فدا کردیا۔ کبھی اِتنی بے بس نظر آئی کہ زندہ دفن کردی گئی۔ محمدؐ کی بیٹی بن کر ظاہر ہوئی تو عالمین  کی تمام عورتوں کی سردار بن گئی اور حسینؑ کی بہن بن کر ظاہر ہوئی تو ظلم کے بڑے بڑے پہاڑوں کو اُٹھا کر فنا کے سمندر میں پھینک دیا۔

علامہ  اقبال فرماتے  ہیں۔"وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ"(۴)[4]

یہ کائنات عورت کے وجود سے رنگین ہے۔ اکثر لوگ عورت کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر مرد کو جنم دینے والی عورت ہی ہے۔  بچّے کی پرورش میں سب سے بڑا کردار عورت کا ہوتا ہے۔

انگریزی کے مشہور شاعر شیکسپیئر کہتے ہیں کہ "عورت ایک پھول کی طرح ہوتی ہے جس کی خوشبو کو محسوس کیا جاتا ہے اُسے زیادہ چھُو کر یا زبردستی توڑ کر خراب نہیں کیا جاسکتا"۔

عورت کی عظمت بہت بلند ہے۔ فضّہؑ کے روپ میں  فاطمہ ؑ کے گھر میں کنیز بن کر کام کرے تو دنیا جوتیوں کو سلام کرتی ہے۔عورت اگر خود کو نہ پہچانے تو شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار بھی بن جاتی ہے۔ حضرت لُوطؑ کی مخالف بنی تو تباہ ہوگئی۔ حضرت نوحؑ کی مخالف بنی تو بیٹے کے ساتھ طوفان میں ڈوب گئی۔ ابراہیمؑ کی تعظیم نہیں کی تو اسمائیلؑ نے طلاق دے دی۔ دشمن بنی تو حضرت امیرِ حمزہؑ کا کلیجہ نکال لیا۔عورت زوجہ بھی ہے، بہن بھی ہے، ماں بھی ہے، بیٹی بھی ہے، عورت گھر کی رونق ہے۔ جس طرح نایاب چیزیں غلاف میں رکھی جاتی ہیں اُسی طرح عورت کو بھی غلاف میں رکھا گیا ہے۔ عورت کا پردہ شہید کے خون سے زیادہ افضل ہے۔اگر یہ ماں کے روپ میں ہو تو جنّت اِس کے قدموں کے نیچے ہوتی ہے، اگر بہت گہرائی میں جاکر جائزہ لیا جائے تو اِس کی آواز کو بھی پردے میں رکھا جاتا ہے۔ عورت کی عظمت کو دیکھتے ہوئے زمین کو بھی انسان کی ماں کہا گیا ہے۔ خدا نے بھی اپنی محبت کی مثال ماں کی محبت سے دی ہے۔ اولاد میں باپ کے خون کا اثر ہوتا ہے مگر ماں کی طرف سے دو اثر ہوتے ہیں۔ ایک خون کا اثر اور دوسرا دودھ کا اثر۔ یہ سچ ہے کہ جسمانی طور پر مرد کو زیادہ طاقت حاصل ہوتی ہے لیکن عورت کے دِل کا حوصلہٰ بھی بے مثال ہوتا ہے۔ عورت نبی نہیں بنائی گئی مگر نبیوں کی ماں ہے اور آخری نبیؐ نے کہا کہ میری بیٹی فاطمہ  میری ماں ہے۔

حجاب کے لغوی و اصطلاحی معنیٰ و مفہوم   :

حجاب کے  کئی مطالب ومعنیٰ ہیں پر سب  ہی ہم معنیٰ ہیں یعنی سب کا مفہوم و مقصد ایک ہی  ہے  ۔ذیل میں چند مختلف  زبانوں کے معنیٰ  پیش  ہیں۔

معنیٰ :حجاب کے معنیٰ، ستر،آڑ حیائی،شرم ،گھونگھٹ،برقع وغیرہ ہیں۔[5]

لغوی معنی: حجاب کے لغوی معنیٰ  پردہ، اوٹ، نقاب ،ڈھانکنا یا چھپانا ہیں۔

اصطلاحی معنیٰ: عورت کا غیر مردوں،نامحرموں اور اجنبیوں سے ستر چھپانا، اپنے آپ کو پوشیدہ ، ڈھکا لپٹا رکھنا ، پردہ یا حجاب  کہلاتا ہے۔

اردو معنیٰ:پردہ (مزکر) اوٹ، چلمن ، سطح، بھید،پرت، جسمانی اعضاء کی جھلی۔[6]

حجاب (مزکر) پردہ ، شرم۔[7]

انگریزی معنیٰ: VEIL: A piece of material that a woman puts over her head and face. [8]

فارسی معنیٰ:    حَجَب:پردہ کرنا،پردہ پوشی ،نقاب پوشی، روپوشی، شرم و حیا۔                                                           حُجُب:حجاب کی جمع۔[9]

پردہ:اوٹ چلمن ، نقاب، گھونگھٹ،چک یا کوئی اور چیز جو حجاب کی غرض سےدروازے پر لٹکادی جائے۔[10]

عربی معنیٰ: عربی زبان  میں حجاب کالفظ پردہ اور لباس کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ باب حَجَبَ،یَحْجُبُ،حِجِابًا(بروزن نصر) سے مصدربھی آتا ہے مروّج   جدید عربی میں اس لفظ  کا  مطلب مسلمان خواتین کا لباس ہے۔ عربی لغت کے مطابق حجاب سے مراد مانع یعنی ایسی چیز جو دو چیزوں کے درمیان جدائی ڈال دے،چھپانا،پردہ کرنا اور ستر کے مفہوم و معنیٰ میں ہے۔[11]

تعارف ِحجاب:     

لفظ حجاب عربی زبان سے ماخذ ہے اور اس کا ہم معنی لفظ  پردہ  فارسی زبان کا لفظ ہے جو لباس کے مفہوم   میں  آتا ہے۔حجاب کی جمع "حُجُب"ہے اس کا مطلب دو اشیاء کے بیچ کسی بھی رکاوٹ یا  کوئی حائل شدہ شے، جس کے سبب دونوں اشیاء یا اجناس  ایک دوسرے سے چھپ جائیں۔   اور اس کا مطلب "چھپانا"اور حائل ہونا ہے۔حجاب  حکم  خدا وندی ہے جو ہر بالغ عورت پر واجب ہے،عورت کے معنی ڈھکی یا چھپی ہوئی شے۔ حجاب نظام اسلامی کا اہم عنصر ہے   حجاب یعنی شرم وحیاء۔ سرور کائنات محمدﷺ کا  ارشاد ہے کہ "ایمان و حیا لازم و ملزوم ہیں۔ان میں سے اگر ایک بھی اٹھ جائے تو دوسرا خود بخود اٹھ جاتا ہے"حجاب مسلم معاشرے میں   پاکیزگی، فروغ حیاء و تقدس کا موجب ہے۔دین اسلام نے صنف نازک کو نگینے و آبگینے جیسی حساس  ، نازک  طبع  اور قیمتی شے سے مشابہت عطاء فرمائی  حکم ِ حجاب  صنف نازک کے لئے عظیم نعمت و تحفہ کا درجہ رکھتا ہے۔

عفاف کے لغوی و اصطلاحی معنیٰ و مفہوم   :

مانندحجاب عفاف کے   بھی ایک سے زیادہ معنیٰ  ومطالب ہیں اور یہ سب  بھی ہم معنیٰ ہی  ہیں یعنی   ان  سب کا مفہوم و مقصد  بھی حجاب کے معنی کی مانند ایک ہی   بنتا ہے  ۔

لغوی معنی: نیک، مہذب، خالص، پارسائی، پرہیزگاری، پاک دامنی[12]

اصطلاحی معنیٰ: عفاف سے مراد انسان کی پارسائی، پرہیزگاری، پاک دامنی، عفت اور مہذب  وخالص ہونا ہے۔

اردو معنیٰ:پارسائی، پاکیزگی، پرہیز گار، پاکباز، پارسا

انگریزی معنیٰ:; Virtuousness; Morality; Decency; Chastity Pure[13]

تعارف عفاف:

لفظ عفاف عربی زبان سے ماخذ ہے جس کے معنی عفت، پاکیزگی کہ ہیں اور اس کا ہم معنی لفظ    خالص، پارسائی، پرہیزگاری، پاک دامنی ،، پاکباز ،مہذب   ہیں اگر غور کیا جائے تو تمام معنی ایک ہی مرکز پر جمع ہو جاتے ہیں اور انسان کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ جو انسان پاکباز و پاک دامن ہے دراصل وہ ہی خالص وہ مہذب ہے اسی کو پارسا اور پرہیزگار مانا جائے گا بصورت دیگر  وہ شخص خداوند عالم کا ناپسندیدہ اور بدکار ہے کیونکہ ایک عفاف ہستی ہی خدادند عالم کی محبوب ہوتی ہے تبھی تو انبیاء کی اعلیٰ اوصافات میں عفاف شامل ہے۔

عورت،حجاب و عفاف  تسبیح کے دانے:

سماعت میں کچھ  عجیب محسوس ہوا ہوگا کہ تسبیح کے دانے اس سے کیا مراد ہے؟ تو محترم قاری جس طرح دانے سے جڑ کر دانہ تسبیح بناتا ہے  اور اس کا احترام لازم ہے   اور اگر دانے بکھر جائیں  جدا ہوجائیں تو ان کی کوئی وقعت نہیں بلکل اسی طرح عورت،حجاب و عفاف  تسبیح کے دانوں کی مانند ہے  جب تک ایک دوسرے سے وابستہ و پیوستہ  ہیں تب تک قابل احترام ہیں ۔ ان تینوں کا آپس میں کیا رشتہ ہے اس پر توجہ کرتے ہیں۔ عورت کی پاکدامنی کا تاج حجاب ہے  ، عورت کی خوبصورتی حیاء میں ہے عورت کی عزت و وقارپاکدامنی میں ہے،عورت کا رتبہ بلند اخلاق میں ہے ، عورت کا تحفظ حجاب  میں ہےحجاب   کا مقصدخواتین کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنا یااُن کی تمناؤں کا خون کرنا نہیں ہے بلکہ اُس کو عزت وعصمت و عظمت  و عفاف  کی دولت سے نوازنا ہے اور مردوں کو بے حیائی کے خیالات و جذبات سے بچانا ہے ، اسلام نے معاشرے کی اصلاح اور برائی اور بے حیائی کی روک تھام کے لئے بہترین اور جامع نظام مسلمانوں کو دیا ہے۔

نبی کریم ﷺکا ارشادِ گرامی ہے کہ "ہر دین کاکوئی امتیازی وصف ہے اوردین اسلام کا امتیازی وصف حیاء ہے"[14]

ایسی عورت جو خدا سے محبت کرتی ہے اور خدا کی محبت اور توجہ اپنی طرف راغب کرنا چاہتی ہے اسے بھی یہ دیکھنا ہوگا کہ خدا خواتین کو کس طرح پسند کرتا ہے۔ خدا ڈھکی ہوئی عورت سے محبت کرتا ہے۔ یہ حقیقت قرآن میں بیان ہوئی ہے۔ کسی عورت کے لئے خدائی توجہ اپنی طرف راغب کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ حجاب  و عفاف ، سادگی اور رواداری  کو اپنا لے۔قرآن مجید کی آیات ، خوشحالی اور نجات ، عظیم اجر ، رحمت ، علم و حکمت ، بخشش ، توبہ ، عفت ، دل کا تزکیہ ، کاشت ، تقویٰ اور خدا کی اطاعت کے مطابق حجاب کے ذاتی اثرات اور وجوہات میں سے ایک ہے۔ مثال کے طور پر ، سورہ نور کی آیت نمبر 31 میں ، خدا ، آیت کے آخر میں ، غیر محرموں سے عورتوں کے تقویٰ اور حجاب کی پابندی کے لئے اہل ایمان کو دعوت دینے کے بعد ، فرماتے ہیں:

"اے ایمان والو تم سب خدا سے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔ خدا سے توبہ کریں ، آپ سب ، اس امید پر کہ آپ ترقی کریں گے[15]

یعنی اس آیت میں حجاب نجات کے حصول کے لئے ہے۔حجاب کا فلسفہ خدا کی توجہ اپنی طرف راغب کرنا ہے۔حقیقی قربتِ خدا و  رسول ﷺ کے حصول کے لئے ایک باپردہ عورت بنیں کیونکہ ایک مسلمان عورت باحجاب و باپردہ اس لئے رہتی ہے کہ خدادند کریم   نے قرآن  و سنت اور احادیث کے ذریعے اسے حکم دیا ہے اور اس کا سب سے قیمتی  سرمایہ عورت کی حیا کو قرار دیا ہے   جس کا ثمر شہوت پر قابو اور عفاف  و عزت کی ضمانت ہے۔کیونکہ

ادشاد نبوی ﷺ ہے کہ : ”اسلام عریاں ہے اور حیا اس کا لباس ہے۔[16]

حجاب   عورتوں کے لئے رحمتِ خدا ہےبے حجابی  پہ لعنت پروردگار ہےشرم وحیاءعورت کا زیورہےحجاب و عفاف   یعنی شرم وحیاء، حجاب وعفا ف  یعنی عفت و پاکیزگی، حجاب  و عفاع یعنی نجابت و طہارت، حجاب و عفاف یعنی عورت کے سرپر بندگی   الہی کا تاج ، حجاب  وعفاف یعنی عفت و پاکدامنی کی زکات ، حجاب  وعفاف یعنی آبروئےحُسن پہ شرم وحیا کاپھول،با حجاب عورت جیسے صدف میں گوہر نایاب۔

بے حجابی  یعنی خواتینِ اسلام کی عظمت وتقدس کی پامالی،بے حجابی ،یعنی اخلاقی انارکی، بے حجابی یعنی قلب و نظر کی گندگی، بے حجابی یعنی بدنگاہی کی دعوت، بے حجابی یعنی بے حیائی،بے دینی اور بدکاری کافروغ، بے حجابی  یعنی شرم و حیاءکا خاتمہ،بے حیائی یعنی اخلاقی اقدارکی تباہی، بے حجابی یعنی مردوں کے لئے شرو فساد ، بے حجابی یعنی جاہلیت کا تبرّج و پسماندگی، بے حجابی یعنی بےباکی اوردِینی غیرت و حمیت سے بے نیازی وبے حِسی کا مظاہرہ ہے۔

بے پردگی کے اسباب:

اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں نعمت اسلام سے نوازا اور ایک ایسی شریعت دی جس میں صحیح عقائد، عمدہ اخلاق اور کردارکی پاکیزگی کی اعلیٰ تعلیم ہے اور شرک وبدعت و بداخلاقی اور بے حیائی سے ممانعت پوری تاکید کے ساتھ موجود ہے۔ اور ہر ہر قدم پر علم وعمل اور قانون کے ذریعہ عفت وپاک دامنی کو فروغ دیا گیا اور بے حیائی، زناکاری وغیرہ پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

          پاکیزہ معاشرہ اور صاف ستھری سوسائٹی کے لیے عورتوں کو گھروں میں رکھ کر گھریلو ذمہ داریاں ان کو دی گئیں اور مردوں کو باہر کی ذمہ داریوں کا پابند کرکے مردوں اور عورتوں کو باہمی اختلاط سے روکا گیا؛ تاکہ ایک صاف ستھرا اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آسکے۔مغرب ایک طرف سے حقوق نسواں کے نعرے لگاتا ہے جبکہ دوسری طرف مغربی معاشرے میں مسلم خواتین کے حقوق غصب کئے جاتے ہیں، انہیں اپنی روایات و اقدار کے مطابق حجاب اور لباس تک کی اجازت نہیں دی جاتی، مغرب کے اس دوہرے معیار کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے؟

ایک بہت ہی واضح، صریح بے اصولی اور دہرا معیار دیکھا جا سکتا ہے، مغرب جو آزادی خواتین کے حوالے سے دعویٰ کرتا ہے اور جو عملی طور پر انجام دیا جاتا ہے، وہ بالکل دعوے کے برعکس ہے۔ ایک طرف تو مغرب والے کہتے ہیں کہ ہر انسان اپنے افعال میں آزاد ہے، عورت بھی آزاد ہے، آزادی اظہار، آزادی مذہب و عقیدہ، تو پھر ایک خاتون کو اس کے مذہب کے مطابق سر پر حجاب کیوں نہیں لینے دیا جاتا؟ کیوں مغربی ممالک حجاب کے خلاف ایک طوفان برپا کئے ہوئے ہیں، یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مغرب کا آزادی نسواں کا نعرہ ایک جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ نہیں۔ علاوہ ازیں، خواتین کی آزادی کی خود ساختہ تعریف بنا لی گئی ہے جو بالکل ہی آزاد قسم کے والدین کی روش ہے اور آزادی کی بجائے ایک غلامی  ہے۔ یہ تعریف ایک قید کی مانند ہے۔ اس کے تحت خاتون سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ گئی ہے۔ اس کا خاندانی کردار ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ جہاں اسلامی ممالک میں ایسے مسائل کم نظر آتے ہیں وہیں مغرب والے  آزادی نسواں کی تعریف اور عمل دونوں میں بے اصولی کا شکار نظر آتے ہیں۔جدید استعمار ایک مرتبہ پھر عورت کی مظلومیت   کی ایک نئی  سوغات لے کر نمودار ہوا ہے۔ اس  مرتبہ عورتوں کو  ظلم کی چکی میں پیسنے کے  لئے  اس نے آزادی نسواں کے خوش نما نعرے  کو استعمال کیا  اور عورت کو اسلام کے  عطاکردہ عزت ، شرافت اور عظمت کے بلند مقام سے نیچے اتار کر  فساد کی دلدل میں لے گیا۔یورپ و  مغربی ممالک میں جہاں مختلف مذاہب  وعقائد کے لوگ سکونت پزیر ہیں جن میں یہودی، عیسائی، زرتش، ہندو اور مسلم بھی شامل ہیں  وہاں  عورت کو سرمایہ داروں کی  خدمت کے لئے  وقف کردیا گیا۔ اسے ایک ایسی گڑیا  کا روپ دے دیا گیا جس کا کام ان کی بنائی ہوئی آرائشی  مصنوعات کو پیش کرنا اور تجارتی مال کی فروخت کو بڑھانا ہے۔مہر و محبت کے گرمی سے لبریز خاندانی  نظام کو تہہ و بالا  کردیا گیا  بازاروں میں خریداروں کی  توجہ مبذول کرانے کے واسطے عورت کو مجسمے کی مانند نصب کردیا اور یوں عورت روپیہ چھاپنے  والی  ایک مشین کی مانند سرمایہ  داروں کے ہاتھ لگ  گئی۔ لاکھوں عورتوں کو  فحاشی،چوری اور منشیات کا عادی بنا دیا۔ نیز انہیں شہوت رانی ، فحاشی، جنسی رسائل  اور فلموں کی تیاری   کے لئے کام میں لاکر نفسیاتی  بیماریوں ، نشے کی لت ،خود نمائی و خود آرائی  جیسے امراض  میں مبتلا کردیا۔ عورت کو گھر سے نکال کر اور اصطلاحاً انہیں آزادی  عطا کرکے ریستورانوں میں بیراگیری      ، ہوٹلوں میں  برتن  دھونے ، جھاڑو لگانے ، فرش دھونے ، بازاروں میں بطور  سیل گرل، دفتروں میں سیکر یٹری اور گلی کوچوں  میں پولیس کے طور پر لے آئے۔ مغرب  میں طلاق اس قدر عام ہوگئی کہ ہر سال کروڑوں  جوڑوں  میں جدائی ہوجاتی ہے   اور بعض مقامات کا تو یہ عالم ہے کہ ہر دو  شادیوں کے مقابل ایک طلاق  ہوتی ہے۔خود سرمایہ  دار  ممالک کے جمع کردہ اعداد و شمار  ان ممالک میں  عورت کی مظلومیت کے  گواہ ہیں۔انگلستان  میں ۱۸۷۰ء تک ، جرمنی میں ۱۹۰۰ء تک ،سوئزر لینڈ میں ۱۹۰۷ء  تک، اٹلی میں ۱۹۰۹ء تک عورت کو کسی چیز کا مالک نہیں سمجھا جاتا تھا۔[17]

بے پردگی کے بہت سے اسباب ہیں  چند ایک  پہلو ملاحظہ فرمائیں:

1.      بے حجابی جاہلیت اور مغربی تہذیب کی تقلید ہے۔

2.      ترقی یافتہ اور جدت پسند نظر آنے کا خمار ہے۔

3.      بےحجابی اور بد حجابی کے فرق سے لاعلمی یعنی ایک چست لباس پر اسکارف  لپیٹ کر حجاب کو مکمل جاننا۔

4.      محرم و نا محرم کی درست پہچان نا ہونا   ،مشترکہ خاندانی نظام میں ساتھ نشوونما پانے والے  رشتوں کو  یعنی چچازاد ،پھوپھی زاد،خالہ زاد وغیرہ میں فرق نا رکھنا۔

5.      سوشل میڈیا سے متاثر ہوکر خود کو ان  ہی اداکاروں اور فنکاروں جیسا روپ دینا۔ خوب سے خوب تر نظر آنے کی چاہت۔

6.      ستر و حجاب کے  فرق کو نا سمجھنا  ، مختصر لبا س     کو بھی پردہ سمجھ لینا کے جسم تو ڈھکا ہے جبکہ قرآن پاک ستر و حجاب کا واضح فرق بیان کرتا ہے۔

7.      خود والدین و اہل خانہ کا  بچی کو حجاب کی جانب راغب دیکھ کر اس کی حوصلہ شکنی کرنا کہ  دادی اماں بنےکی ضرورت نہیں جیسے کلمات کی ادائیگی۔

8.      مذہب اسلام کو چودہ سو سال پرانا مذہب جانتے ہیں اس لئے حجاب اور تعلیمات اسلامی کو بوسیدہ اور دقیا نوسی کہتے ہیں  ۔

9.      پردہ نا کرنے کی دلیل دینا کہ پردہ تو انسان کی نگاہ  میں ہوتا ہے  قرآن میں بھی نگاہ نیچی رکھنے کا حکم ہے لباس کا نہیں۔

10.  اس کے علاوہ حجاب مخالفیں کے اعتراضات  جوکہ پردےکو قید  و سزاگردانتے ہیں ، چند اعتراضات  مثال کے لئے رقم کئے جارہے ہیں ۔

حجاب کے مخالفین کے اعتراضات:

حجاب کے مخالفین کے اعتراضات کواختصار کے ساتھ  بیان کیا جارہا ہے اور ان کے جوابات بھی پیش خدمت ہیں۔

.1حجاب کے مخالفین کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ معاشرہ میں تقریباً نصف عورتیں ہوتی ہیں لیکن حجاب کی وجہ سے یہ عظیم جمعیت گوشہ نشین اور طبعی طور پر پسماندہ ہوجائے گی ، خصوصاً جب انسان کو کاروبار کی ضرورت ہوتی ہے اور انسانی کار کردگی کی ضرورت ہوتی ہے، تو اگر عورتیں   حجاب  میں رہیں  گی تو اقتصادی کاموں میں ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا، نیز ثقافتی اور اجتماعی اداروں میں ان کی جگہ خالی رہے گی! اس طرح وہ معاشرہ میں صرف خرچ کریں گی اور معاشرہ کے لئے بوجھ بن کر رہ جائیں گی۔

جواب:    لیکن جن لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے وہ چند چیزوں سے غافل ہیں یا انھوں  نے اپنے کو غافل بنا لیا ہے، کیونکہ  اولاً   یہ کون کہتا ہے کہ اسلامی حجاب  کی وجہ سے عورتیں گوشہ نشین اور معاشرہ سے دور ہوجائیں گی؟ اگر گزشتہ زمانہ میں اس طرح کی دلیل لانے میں زحمت تھی تو آج اسلامی انقلاب (ایران) نے ثابت کر دکھایا  ہے  کہ عورتیں اسلامی  حجاب   میں رہ کر بھی معاشرہ کے لئے بہت سے کام انجام دے سکتی  ہیں، کیونکہ ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ خواتین ؛اسلامی    حجاب  کی رعایت کرتے ہوئے معاشرہ میں ہر جگہ حاضر ہيں، اداروں میں، کار خانوں میں، سیاسی مظاہروں میں، ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں، ہسپتالوں میں، کلینکوں میں، خصوصاً جنگ کے دوران جنگی زخمیوں کی مرہم پٹی اور ان کی نگھداشت کے لئے، مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں، دشمن کے مقابلہ میں میدان جنگ میں، خلاصہ ہر  مقام پر عورتوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔

مختصر یہ کہ موجودہ حالات خوداس اعتراض کا دندان شکن جواب ہيں، اگرچہ ہم گزشتہ زمانہ میں ان جوابات کے لئے ”امکان“ کی باتیں کرتے تھے (یعنی عورتیں پردہ میں رہ کر کیا اجتماعی امور کو انجام دے سکتی ہیں) لیکن آج کل یہ دیکھ رہے ہیں، اور فلاسفہ کا  کہنا ہے کہ کسی چیز کے امکان کی دلیل خود اس چیز کا واقع ہونا ہے، یہ بات خود آشکار ہے اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

ثانیاً:    اگر ان چیزوں سے قطع نظر کریں تو کیا عورتوں کے لئے گھر میں رہ کر بچوں کی تربیت کرنا اور ان کو آئندہ کے لئے بہترین انسان بنانا تاکہ معاشرہ کے لئے بہترین اور مفید واقع ہوں، کیا یہ ایک بہتر ین اور مفید کام نہیں  ہے؟

جو لوگ عورتوں کی اس ذمہ داری کو مثبت اور مفید کام نھیں سمجھتے، تو پھر وہ لوگ تعلیم و تربیت، صحیح و سالم اور پر رونق معاشرہ کی اہمیت سے بے خبر ہیں، ان لوگوں کا گمان ہے کہ مردو عورت مغربی ممالک کی طرح اداروں اور کارخانوں میں کام کرنے کے لئے نکل پڑیں اور اپنے بچوں کو شیر خوار گاہوں میں چھوڑ دیں، یا کمرہ میں بند کرکے تالا لگا دیا جائے اور ان کو اسی زمانہ سے قید کی سختی کا مزا چکھادیں۔وہ لوگ اس چیز سے غافل ہیں کہ اس طرح بچوں کی شخصیت اور اہمیت درہم و برہم ہوجاتی   ہے، بچوں میں انسانی محبت پیدا نہیں ہوتی،جس سے معاشرہ کو خطرہ در پیش ہوگا۔

.2حجاب  کے مخالفین کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ حجاب  کے لئے برقع یا چادر کے ساتھ اجتماعی کاموں کو انجام نھیں دیا جاسکتا خصوصاً آج جبکہ ماڈرن گاڑیوں کا دور ہے، ایک پردہ دار عورت اپنے کو سنبھالے یا اپنی چادر کو ، یا اپنے بچہ کو یا اپنے کام میں مشغول رہے؟

جواب :   لیکن یہ اعتراض کرنے والے اس بات سے غافل ہیں کہ حجاب ہمیشہ برقع یاچادر کے معنی میں نہیں   ے   بلکہ حجاب کے معنی عورت کا لباس ہے اگر چادر سے پردہ ہوسکتا ہو تو بہتر ھے ورنہ اگر امکان نھیں ھے تو صرف اسی لباس پر اکتفا کرے (یعنی صرف اسکاف کے ذریعہ اپنے سر کے بال اور گردن وغیرہ کو چھپائے رکھیں)۔ہمارے دیہی علاقوں کی عورتوں نے زراعتی کاموں میں اپنا     حجاب  با قی رکھتے  ہو ئے یہ ثابت کردکھایا ہے کہ ایک بستی کی رہنے والی عورت اسلامی حجاب  کی رعایت کرتے ہوئے بہت سے اہم کام بلکہ مردوں سے بہتر کام کرسکتی ہیں، اور ان کا حجاب ان کے کام میں رکاوٹ نہیں بنتا۔

.3ان کا ایک اعتراض یہ ہے کہ حجاب  کی وجہ سے مرد اور عورت میں ایک طرح سے فاصلہ ہوجاتا ہے جس سے مردوں میں دیکھنے کی طمع بھڑکتی ہے، اور ان کے جذبات مزید شعلہ ور ہوتے ہیں کیونکہ ”الإنسَانُ حَرِیصٌ عَلٰی مَا مُنِعَ“!( جس چیز سے انسان کو روکا جاتا ہے اس کی طرف مزید دوڑتا ہے)۔

جواب :      اس اعتراض کا جواب یا صحیح الفاظ میں یہ کہا   جائے کہ اس مغالطہ کا جواب یہ ہے کہ آج کے معاشرے   کا  پچھلے  زمانے   سے موازنہ کیا جائے آج ہر ادارہ  میں  حجاب کار فرما ہے،آپ بہت سارے اسلامی ممالک  کے  ماضی  قریب  کے زمانے  کا موازنہ کریں   جس  میں عورتوں کو جاب   کرنے سے روکا جاتا تھا مثال کے طور پر ترکی، عراق اور  ایران کو ہی لے لیجئے جو اب مکمل باحجاب مملکت ہے    اُس    میں شاہ کے  زمانے  میں ہر گلی کوچہ میں فحاشی کے اڈے تھے، گھروں میں بہت ہی عجیب و غر یب ماحول پایا جاتا تھا، طلاق کی کثرت تھی ناجائز اولاد کی تعداد زیادہ تھی، وغیرہ وغیرہ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ اب یہ تمام چیزیں بالکل ختم ہوگئی ہیں لیکن بے شک اس میں بہت کمی واقع ہوئی   ہے، ہمارے معاشرہ میں بہت سدہار آیا ہے اور اگر فضل خدا شامل حال رہا  اور یہی حالات باقی رہے اور دوسری مشکلات بر طرف ہو گئی توہمارا معاشرہ اس برائی سے بالکل پاک ہوجائے گا اور عورت کی اہمیت اجاگر ہو تی جائے۔

بے پردگی کا راہ حل:

سب سے پہلے یہ سمجھنا لازمی ہے کہ               دین اسلام پاکیزہ فطرت ، عقلانیت اور انسانوں کی ضروریات پر مبنی  ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو   انسانوں کے تمام  تقاضوں کو پورا کرتاہے۔ اسلام کی  تعلیمات میں  حجاب  عورت کے لئے زینت ہونےکے ساتھ  ایک اہم ضرورت  بھی ہے  نا کہ کوئی رکاوٹ !جس کی قرآن وسنت دونوں میں  تاکید کی گئی ہے ۔ حجاب نہ صرف اسلام میں اہمیت کا حامل ہے بلکہ دیگرسابقہ ادیان الٰہی میں بھی  اس موضوع پر توجہ دی گئی  ہے ۔ا سلام سے قبل مختلف اقوام وقبائل حجاب کے معاملے میں افراط و تفریط کا شکار تھے ہر قبیلہ اپنے ذوق کے مطابق حجاب کی تعریف اور اس کے حدود ومقدار بیان کرتاتھا  جس میں عورت کی شخصیت اور مقام  سے چشم پوشی کی جاتی تھی ۔ لیکن اسلام وہ واحد دین ہے جس میں ان کی شان ومنزلت کے مطابق حجاب کا تصور موجود ہے۔ اسلام عورت کو پردے کی ترغیب دلاتاہے اور اس بات کی تاکید کرتاہے کہ عورت جس قدر سنجیدہ ، باوقار اور پاکدامن ہوگی  اور خودکو نامحرموں کی نگاہوں سے ڈھانپے رہے گی اس کے احترام میں مزید اضافہ ہوتا چلاجائے گا درحقیقت عورت نصف انسانیت ہے قومی وملی زندگی میں عورت کی اہمیت مسلمہ ہے۔ انسانی زندگی میں ایک مرد کا مقام ومرتبہ ہے تو دوسری طرف عورت کا بھی اتنا مقام ومرتبہ ہے ۔ اگر ایک مرد خراب ہوتو یہ اس کی اپنی ذات تک محدود ہے لیکن  ایک عورت  کی شخصیت  پر حرف آے تو یہ اس کی ذات تک نہیں پورے خاندان پر اس کا اثر پڑتا ہے۔اگرعورت صراط مستقیم پر چلے تو   صاحب کردار شخصیات تیار کرسکتی ہیں ،اپنے دامن سے دیندارا فراد تیار کرکے معاشرے کے سپرد کرتی ہے اور تمام انسانی  واسلامی تقاضوں پر عمل پیرا ہوکرمعاشرے کو سنوارتی ہے۔مسلمان عورتوں کےلیے حجاب ایک شرعی وظیفہ ہے  اسلام اس قدر عورت کی حرمت کا قائل ہے کہ پردہ کو عورت کے لئے واجب قرار دیاہے تاکہ نایاب موتی  کی مانند نامحرموں کی بُری نظروں سے محفوظ رہے اور اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دے سکے۔ اسلام نے خاندان اور معاشرے کی تربیت کی ذمہ داری کو عورتوں کے کاندھوں پر رکھا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عفت اور حیاء کو اس کے وجود کی صفات میں سے قرار دیاہے ۔  اسی وجہ سے ہر  پاک فطرت کے حامل عورت   یہ  صفت اپنے اندر رکھتی ہے۔ اسلام چاہتاہے  کہ عورت اپنی شخصیت اور تقدس کی حفاظت کرے اسی وجہ سے حجاب کو ان پر لازم قرار دیاہے۔ حجاب اسلام کے ایک مسلمہ فرض ہونے کے باوجود مغربی مکاتب فکر اور غیر اسلامی نظریات کی وجہ سے اس کے بارے میں مختلف شبہات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ جس سے متاثرہ بعض خواتین پردے کواپنے لیے ضروری نہیں سمجھتی       بلکہ بعض اوقات خواتین کے حقوق کے منافی قرار دیتی ہیں اور اسے ایک رکاوٹ کا درجہ دیتی ہیں۔

جبکہ حجاب کا اصل مقصد عورت کا اپنے آپ کونامحرم مردوں سے ڈھانپنا ہے۔ تاکہ اس کی عزت کاتحفظ ہو اور معاشرے میں فسق وفجور جنم نہ لے سکیں زمانہ قدیم سے لے کر عصر حاضر تک حجاب کے حالات کومدنظر رکھا جائے تو ہر دور میں بےحجاب اور باحجاب دونوں قسم کی خواتین نظر آئیں گی ۔ البتہ دور حاضر میں مادی و مغربی  نے تمام انسانی اور اسلامی اقدار کو نشانہ بنایے ہوا ہے  ایک طرف بعض ممالک کی طرف سے حجاب کی مخالفت میں منفی تبلیغات اور شبہات روز بہ روز بڑھتے نظر آرہےہیں اور دوسری طرف اسلام مسئلہ حجاب کے بارے میں بہت حساس ہے اور ہمیشہ سےحجاب کے مخالفین کے خلاف عکس العمل ظاہر کرتا رہاہے ۔آج کامعاشرہ  پر آشوپ اور نفسانفسی کا معاشرہ ہے جس میں حجاب اسلامی کا تصور بدل رہاہے یا یوں کہیں کہ آہستہ آہستہ ختم ہورہاہے یہ تمام باتیں اس ضرورت کاتقاضہ کرتی ہیں کہ حجاب کے درست مفہوم کوقرآن وسنت کی روشنی میں بیان کیاجائے اور اس بات کو منظر عام پر لایاجائے کہ حجاب فطرت انسانی کے موافق ہونے کے باوجود معاشرے میں بے حجابی کیوں ہے اور کون پھیلا رہا ہے؟ اور حجاب کے متعلق صحیح اور غلط نظریات کوقرآن وسنت کی روشنی میں پرکھا جائے ۔حجاب کے حوالے سے متاثرہ افراد اب اس کو معاشرہ  میں پھیلانے کی کوشش میں ہے۔اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ حجاب کی اہمیت و ضرورت کو اسلامی نکتہ نظر سے بیان کیا جایے  تاکہ ہماری عورتوں کے لیے رہنما ثابت ہو سکے۔ جن غلط اقدار کو ہم نے اپنے آپ پر مسلط کر دیا ہے، یہ تو دراصل   تعلیمات اسلامی ہی نہیں ہیں  اورہمارے مذہب اسلام سے  اسکا کوئی تعلق  و واسطہ  ہی نہیں ہے ۔ جو حقوق  نسواں اسلامی تعلیمات کا لازمی جز ہیں ، وہ حقوق کرہ ارض کے کسی خطے میں بھی نہیں حاصل ہیں یہاں تک کے نام نہاد جدید جمہوری ریاستوں کی خواتین کو میسر نہیں ہیں ۔خواتین کی عزت و احترام  اور ان کے اصل حقوق کا سلسلہ تو آج سے چودہ سو سال پہلے ہی  حضرت خدیجہ سلام  اللہ علیہا، حضرت فاطمۃ الزہرہ سلام  اللہ علیہا  حضرت زینب بنت علی سلام  اللہ علیہا  اورصحابیات رضی اللہ عنھم کےکردار  کی صورت ہمارے لئے مشعل راہ  اور نمونہ ِ  عمل ہیں۔ ایک مسلم خاتون حضرت رابعہ بصریؒ تصوف کی اعلیٰ ترین منزل تک پہنچیں ۔ امید افزااور خوش آئند بات یہ ہے کہ  نا صرف پوری دنیا کی بلکہ پاکستان کی  باحجاب خواتین  ہرہر شعبے میں اپنی صلاحیت کی بنیاد پر پیش قدمی  کرتے ہوئے پاکستانی  معاشرےکی تعمیر وتشکیل  میں اپنا پورا کردار نبھا رہی ہیں ۔ جمہوری جدوجہد ہو یا کہ مختلف سماجی اور سیاسی مسائل کو اجاگر کرنے کا عمل ہر میدان  میں باحجاب  خواتین کے تخلیقی کاموں کے حیرت انگیز نتائج واضح ظاہر ہوئے ہیں۔  ان ہی خواتین کی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ پنجاب اسمبلی میں خواتین کے حقوق کا ایک بل بھی  منظور ہوا ہے  گو کہ اس بل میں  مذیدبہتری کی گنجائش باقی ہے لیکن یہ بل خواتین کے حقوق کی پہچان و حصول کی جانب پیش رفت ہے ۔ہماری  با حجاب خواتین جس طرح ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کے پرچم لہرا رہی ہیں اور  تیزی  سے آگے بڑھ کر قائدانہ کردار ادا کر رہی ہیں ، آج کی باحجاب عورت نے اپنے حجاب کو ترقی و کامیابی  کا پرچم بنا لیا ہے اس سے یہ صاف ظاہر  ہوجاتا ہے  کہ حجاب رکاوٹ نہیں ضرورت ہے۔

عورت کے لئے پردے کی حکمت:

حجاب  کا"انکشاف" ہوا تھا تاکہ دو مردوں  اور   عورتوں  کے درمیان رکاوٹ پیدا ہو۔ "حجاب" کے لفظ کا ایک جہتی معنی ہے۔ پہلا تصور "نظر" طول و عرض ہے ، جس کا مطلب ہے کسی چیز کو نظروں سے ہٹانا۔ دوسرا تصور "جگہ" یا "جگہ" کی جہت ہے ، یعنی حدود طے کرنا ، اور آخر میں ، تیسری جہت "اخلاقیات" ہے ، جو ممنوعات کے دائرے سے تعلق رکھتی ہے۔ عورت کے لئے حجاب کی سب سے بڑی حکمت  اس کا تحفظ و احترام ہے۔ عورت کو بہت سی ایسے عوامل و اسباب اور اشیاء  سے بچانا،  تحفظ دینا اور محفوظ   رکھنا بہت اہم امر  ہے جس سے مردوں کا تحفظ ضروری نہیں ہے۔اسی لئے حکم حجاب  عورت پر لازم قرار دیا گیا  جبکہ مروں کو نگاہ نیچی رکھنے کا فرمان ہے۔ عورت کے لئے حکم حجاب کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ عورت بے حجاب ہونے سے معاشرے میں فتنہ ، فساد اور بےراہ روی   پروان چڑھتی ہے۔ حجاب ِ اسلامی کے معنی  عورت کو قید کر دینا ، اُسے پردے کےپیچھے  بٹھال رکھنا اور نتیجے    کے طور پرا اجتماعی سرگرمیوںمیں شرکت سے روک دینا نہیں بلکہ حجاب  کا حکم  اس لئے ہے کہ  مومن  عورت  مردوں  کے ساتھ میل جول  کے دوران  اپنے بدن کو  چھپا کے رکھے  اور جلوہ گری  اور خود نمائی سے گریز کرے اور اجتماعی سرگرمیوں  میں اُس کی  شرکت انسانی اور اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ہو کیونکہ حیا ناصرف ایک عورت کا  زیور ہے بلکہ  زیبائیوں کا سر چشمہ ہے اگر حیا کا فقدان ہوتو کوئی عملِ خیر انجام نہیں پاتا  اور کوئی عملِ بد ترک نہیں ہوتا۔ پیغمبر اسلامﷺ فرماتےہیں:"اسلام عریاں ہے اور حیا  اس کا لباس ہے"۔حیا   یعنی شرم کی وجہ سے  ناپسندیدہ اعمال سےدور رہنا بالخصوص یہ کہ انسان محسوس کرے  کہ ایک دیکھنے والا اسے دیکھ رہاہے ۔ ہمارے اعمال سے خدا کا آگاہ ہونا  اور ہم پر اس کا نظر رکھنا حیا پر ابھارنے کا باعث ہے۔ رسول خدا نے فرمایا ہے کہ:" آج کے دن شرم کرو  کیونکہ   خدا تمہارے تمام امور سے باخبر ہے" ۔ مسلمان عورت کا سب سے بڑا سرمایہ اس کی حیا ہے، جسکا پھل شہوت کا کنٹرول  اور عفت کی ضمانت ہے۔

بکثرت معاشرہ شناسوں نے عورت کے حجا ب کو انسانی معاشرے کے ایک فطری تقاضے کے طور پر متعارف کرایا ہے۔قوانین ِ فطرت کا تقاضا ہے کہ عورت سنجیدگی اور بردباری  کے ساتھ رہے کیونکہ مرد کی خلقت میں جسارت پائی جاتی ہے اور عورت میں بردباری کی  زیادہ  صلاحیت   پائی جا تی ہے۔ لہٰذا ان کے درمیان  پائے جانے والے اس تضاد کو حجاب کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے اور اسی اصول کی بنیاد پر دنیا کی تمام اقوام معتقد ہیں کہ عورتوں  کو حیا اور حجاب  کا مالک ہوناچاہیے۔

نتائج:

ہم مغربی دنیا کی خواتین کی رودادیں پڑھ سکتے ہیں جنھوں نے قبولِ اسلام کے بعد اسلام اور حجاب کو اپنے لیے نعمت قرار دیا اور وہ اسلام کے دائرے میں داخل ہی اس لیے ہوئیں کہ اسلام حجاب کی صورت انہیں ایک محافظ عطا کرتا ہے۔یہ بات کسی صورت درست  نہیں ہے کے حجاب عورت کی  ترقی کی راہ  میں کسی قسم کی رکاوٹ ہے پوری دنیا میں باحجاب کامیاب ترین عورتیں ہر مقام پر مردوں کے شانہ بشانہ ہر شعبے اور ہر عہدے پر موجود ہیں۔ پاکستان کی  بہت ساری با حجاب قد آور  شخصیات             کے   ناموں  سے کوئی بھی انجان نہیں اور میرے خیال میں اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔عورت آج درندوں کی ہوس کا شکار ہے اور جابجا عصمت دری کا شکار ہے.حجاب   سے عورت محفوظ رہتی ہے جس کی مثال میں کچھ یوں رقم  کرنا چاہوں گی  کہ جب بھی آپ قصاب کی دوکان پہ تشریف لے جاتے ہیں تو آپ اس کو اچھی طرح لفافے سے ڈھانپ لیتے ہیں تاکہ کوئی جانور یا پرندہ اس کو نقصان نہ پہنچا دے اور اگر آپ اسے کھلا چھوڑیں گے تو شاید آپ گھر تک بھی  اسے با  حفاظت نہ پہنچا  پائیں۔جب کوئی عورت پردے میں ہوتی ہے تو اس کو احترام ملتا ہے۔ کوئی اس کو چھونے اور چھیڑنے کی ہمت نہیں کر سکتا۔ اس سے عورت کو مکمل تحفظ ملتا ہے   حجاب  سے عورت کو مکمل تحفظ ملتا ہے۔ حجاب  تو عورت کے لئے بلٹ پروف جیکٹ ہے۔

حیا اور حجاب کے یہ قوانین خالقِ کائنات کی خاص رحمت کا مظہر ہیں۔ ان اصولوں نے نہ صرف صدیوں پہلے عرب کے جہالت بھرے معاشرے میں پسی ہوئی عورت کو عزت و احترام کے اعلیٰ درجے پر فائز کیا بلکہ آج بھی یہی عوامل عورت کے تحفظ کا ذریعہ قرار پائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں بھی حیا کے تقاضوں کو پورا کیا گیا ہے وہاں پاکدامن اور صالح معاشرہ وجود میں آیا ہے اور انسانیت نے فحاشی، ہراسانی، زنا اور ہوس سے نجات پائی ہے۔ اس کے برعکس مغربی تہذیب جو حجاب کی ناقد ہے اور حیا کے قوانین کو دقیانوسی اور پسماندگی قرار دیتی ہے، آج اخلاقی زوال کا شکار ہوکر اپنا پھیلایا ہوا گند سمیٹنے کی کوشش کررہی ہے۔ حیا کے اصولوں سے عاری معاشرہ ناجائز تعلقات اور فحاشی و عریانی سے بڑھ کر ہم جنسی اور ہوس کی تسکین کے لیے نئے طریقوں کو ڈھونڈنے کی راہ پر چل پڑا ہے۔ مردو عورت کی آزادی نے عورت کی عزت و عصمت کا تحفظ ختم کرکے اسے آلہ تجارت بناکرپیش کردیا ہے۔

چادر کے اندر  ایک عورت کی ہی نجات نہیں   بلکہ چادر کے اندر  ایک ملت کی نجات  ہے  کیوں کہ بے حجاب    عورت  پوری ملت کو گمراہ کردیتی ہے۔حیا اور حجاب پاکیزگی اور آزادی کی توانا علامت ہیں۔ یہ معاشرے کے لیے رحمت اور فتنوں کے دور میں تحفظ کرنے والی ڈھال ہیں۔ یہ وفا کی علامت اور اسلامی تہذیب کی بنیاد ہیں۔

مذکورہ تحقیق کے دوران حجاب کے متعدد پہلوؤں کو مورد بحث قرار دینےکے بعد جو نتائج سامنے آتے ہیں وہ ان کو ناصرف نکاتی صورت میں پیش کیا ہے بلکے اس کی وضاحت بھی مختصراً بیان کی ہے ۔

1-حجاب انسانوں پر، خاص طورسے خواتین پر پابندی عائد کرنے کے لئےنہیں بلکہ اس کے ناموس اور عزت کی حفاظت کے لئے فرض کیا گیا ہے۔

وضاحت: اسلامی حجاب کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلام نے عورتوں کوگھروں میں قید کردیا کہ وہ ہمیشہ اندر ہی رہیں کبھی باہر نہ نکلیں،) جیساکہ آج کل یہ بات غلط العام ہے (، بلکہ اسلام نے خواتین کو ضرورت کےوقت پردے کے ساتھ باہر نکلنے کی اجازت دی ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے:;اے پیغمبر! آپ اپنی بیویوں اورمسلمانوں کی عورتوںکو کہہ دیجیے کہ وہ اپنی چادریں اپنے اوپر لٹکائیں،اس میں یہ قریب ہےکہ پہچانی جائیں اور کوئی انہیں نہ ستائے اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا اوررحم کرنے والا ہے۔[18]

) آیت کریمہ سے دلالتہً یہ بات معلوم ہورہی ہے کہاگر خواتین کو ضرورت کے وقت باہر نکلنا پڑے تو وہ لمبی چاریں (یابرقعہ وغیرہ) پہن کر باہر نکلیں۔ اس سے پردہ شرعی کے حکم کی تعمیل بھی ہوجائے گی اور بہت سہولت کے ساتھ شریر لوگوں سے حفاظت بھی،جلابیب جلباب کی جمع ہے جو لمبی چادر کو کہا جاتا ہے، جس میں عورت سر سے پیر تک مستور ہوجائے، جس کی ہیئت کے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ وہ چادر ہے جو دوپٹے کے اوپر اوڑھی جاتی ہے۔ [19]

( یعنی ثابت ہے کہ خدادند کریم نے حجاب عورت کے لئے رکاوٹ یابندش کی شکل میں نہیں نا فذ کیا بلکہ اس کے عزت و وقار میں اضافہ کرنے اور اس کے حفاظتی نکتہ نگاہ سے نافذ فرمایا۔

.2دشمنانِ حجاب نے جو سب سے اہم غلط العام بات رائج کر رکھی ہے وہ ہے کی حجاب اسلام کی شدت پسندی کی پیدا وار ہے جبکہ ایسا نہیں ہےقبل از اسلام مذاہب دیگر میں حجاب کی سخت ترین روشیں موجود تھیں۔

وضاحت: بعض اسلام مخالفین عناصر اسلام پر حجاب کے ذریعے خواتین کے حقوق کو محدود کرنے بلکہ خواتین کو بنیادی انسانی حقوق سےمحروم رکھنے اور انتہاپسندی کا الزام لگاتے ہے، انہیں معلوم ہونا چاہئےکہ اسلام نے جو عورتوں کو حقوق دیا ہے وہ دنیا کے کسی دین و مذہبنے نہیں دیا ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام سے پہلے اور بعدمیں بھی مختلف ادیان اور معاشروں میں خواتین کے لئے اسلامی حجاب سے بھی سخت محدود کرنے والے حجاب رائج تھے۔[20]

3. بے حجابی عورت کے حُسن کی نمود و نمائش کا باعث ہے جو خود بہت سارے معاشی، معاشرتی خاص طور پر جنسی مسائل کے جنم لیتے کاباعث بنتا ہے۔

وضاحت: بے حجابی کے سبب نمود و نمائش اور زیبائش کے راستے کھل جاتے ہیں جس کے سبب معاشی جیسا کہ نت نئے فیشن کے لباس آلات آرائش و زیبائش کا اضافی خرچہ گھریلو معاشی نظام کو درہم برہم کردیتا ہےاور اسی طرح معاشرتی مسائل جنم بھی لیتے ہیں جیسے کہ حجاب معاشرے میں جنسی بے راہ روی اور بے حیائی کے پھیلاؤ کا راستہ روکنے میں معاون کردار ادا کرتا ہے، مردو زن کے درمیان خواہشات نفسانی کے خطرات سے حفاظت کا باعث ہے، قلوب کو نجاست و پلیدگی سے پاک رکھتا ہے اور حجاب کے سائے میں تشکیل شدہ پاکیزہ رشتوں کے نتیجے میں پاکیزہ نسلیں اور عائلی نظام زندگی جنم لیتا ہے۔[21]

تجاویز وآراء:

اس تحقیقی عمل کے اختتام پر تجاویز کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے کیونکہ موجودہ تحقیق ایک محدود دائرے میں کی گئی ہے لہٰذا پہلے حصے میں تجویز دی جاتی ہے کہ اس کے دیگر پہلوؤں پر مزید تحقیق کے لئے کچھ اور محققین جستجو کریں اور انکا احاطہ کریں اس لئے محقیقین کرم کے لئےا ن پہلوں اور نکات کا ذکر کرنا چاہوں گی جو راقم کی حدود تحقیق سےباہر تھے ۔

اول حصہ :مجوزہ تحقیقی موضوعات برائی محقیقین:

1. حجاب مخالف تحریکوں کے پسِ پردہ حقائق اور ان سے مقابلے کی راہیں۔

2. اسلامی معاشروں پر مغربی تہذیبوں کا ثقافتی یلغار اور اس کا اسلامی حجاب پر اثرات ۔

3. حجاباسلامی، معاشرے میں بڑھتی ہوئی جنسی بے راہ رویوں کا بہترین سدِّ باب۔

4. حجاب کے احکام سے اسلامی معاشرے کو آگاہ کرنے کے ممکنہ راستے۔

5. بے حجابی سے بچنے اور حجاب کی ثقافت عام کرنے میں عوام اور حکومت کا کردار۔

دوم حصہ:برائی ہر خاص و عام:

1. جیسا کہ یہ بات تحقیق سے ثابت ہوچکی ہے کہ حجاب عورت کی ترقی کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہے اور عورت کی ایک بنیادی ضرورت ہے اس حوالے سےمسلم ممالک میں جو حجاب کے خلاف تحریکیں چلائی جارہی ہیں ان پر علمی اور تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے دلائل کے ساتھ اور جو لوگ حجاب کو نہیں مانتے انہیں سمجھانے کی ضرورت ہے۔

2. دور حاضر میں مسلم ممالک میں مغربی ممالک کی پیدا کردہ بےراہ روی کی تحریکیں چل رہی ہیں بہت سارے جنسی مسائل ہیں اس کے سدِباب کے لئے بھی حجاب کو لازمی قرار د یا جانا چاہئیے تاکہ فطرت نے عورت کے لئے جو حجاب لازمی رکھا ہے اس کے فطری فوائد فقط حجاب کی صورت میں ہی ظاہر ہونگے اور ان غلط افکار سے جان چھٹے گی۔

3. والدین کو چاہئیے کہ سوشل میڈیا اور ایسے تمام مواد سے دور رکھیں جو ان کو فیشن کے نا م پر بے حجابی پر اکساتے ہیں۔چونکہ ہمارے ملک میں مشترکہ خاندانی نظام ہے تو اس نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے والدین اور علماء محرم اور نامحرم کی واضح پہچان کروائیں۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

کتابیات:

1.      القرآن

2.      شیرازی،آیت اللہ ناصر مکارم ، تفسیرِ نمونہ، مترجم مولانا سید صفدر حسین نجفی ،(لاہور:مصباح القرآن ٹرسٹ، ربیع الثانی ۱۴۱۷ھ)

3.      پانی پتی، قاضی ثناء عثمانی مجددی ، تفسیر مظہری ،مترجم الازہری، پیرمحمد کرم شاہ ،(لاہور:ضیاء القرآن پبلیشر،۲۰۰۲ء)

4.      سیو ہاروی، محمد حفظ الرّحمٰن،قصص القرآن،(کراچی:دارالاشاعت اردو بازار،۲۰۰۲ء)

5.      کیلانی،عبدالرحمن،احکام ستر و حجاب،(لاہور:مکتبتہ السلام،وسن پورہ،مئی۲۰۰۹ء)

6.      الہاشمی،محمد علی،مسلمان عورت اور اس کا اخلاقی و معاشرتی کردار،(لاہور:مسلم پبلیکیشنز،اکتوبر۲۰۱۷ء)

7.      راشدی، سید بدیع الدین شاہ،اسلام میں عورت کا مقام،(سندھ: جمعیت اہل حدیث،جنوری۲۰۰۹ء)

8.      طیب،قاری محمد،شرعی پردہ،(لاہور:ادارہ اسلامیات انارکلی،جنوری۲۰۱۶ء)

9.      محمدی،قاری صہیب احمد میر،عورت کا زیور پردہ،(ریاض:مکتبہ بیت السلام الریاض،۲۰۱۳ء)

10.  شہباز، ابو سعد احسان الحق،اسلام عورت اور یورپ،(لاہور: دار الاندلس،فروری۲۰۱۷ء)

11. نا ئیک، ذاکر،اسلام میں خواتین کے حقوق جدید یا فرسودہ،مترجم امتیازحسین،(لاہور:دار النوادر،اپریل ۲۰۰۹ء)

12.  ربانی،ابو الحسن مبشر احمد،پردے کی شرعی حیثیت، جدید ایڈیشن،(لاہور:دارالاندلس،جولائی۲۰۱۳ء)

13.  ابو زید،بکر بن عبد اللہ ،پردہ محافظِ نسواں،(لاہور :دارالاندلس،فروری۲۰۱۲ء)

14.  صدقی،نعمت،تربیتِ نسواں،(فیصل آباد:طارق اکیڈمی،مارچ۲۰۱۵ء)

15.  بیگم،نواب شاہجہان،تہذیب النسواں و تربیت،(لاہور:نعمانی کتب خانہ،مارچ۲۰۱۵ء)

16.  فیروز اللغات(فارسی،اردو) مرتب کردہ: مقبول بیگ باخشانی،ایڈیٹر:ڈاکٹر وحید قریشی، (لاہور:فیروز سنز پرائیوٹ لمیٹڈ۲۰۰۴ء)

17.  شیرازی، عبد الکریم بی آزار، اسلام نے عورت کو کیا دیا،(کراچی:دار الثقلین،اپریل ۲۰۱۶ء)

18.  مودودی، سید ابو الاعلیٰ،پردہ،(لاہور:اسلامک پبلیکیشنز پرائیوٹ لمیٹڈ،اپریل ۲۰۰۵ ء)

19.  مطہری ، مرتضیٰ،مترجم رضوی، سید محمد موسیٰ، فلسفہ حجاب ،(کراچی:جامعہ تعلیمات اسلامی پاکستان،۱۹۹۳ء)

20.  آزاد دائرہ المعارف ویکیپیڈیا

 



[1] القرآن۲/۲۲۸   (با ترجمہ قرآن سے استفادہ حاصل کیا گیا)

 

[2] القرآن۲۴/۳۱

[3] القرآن۳۳/۵۹  

[5] احمد ،قاری صہیب،عورت کا زیور پردہ،(ریاض:مکتبہ بیت الاسلام۱۴۲۲ھ)،ص۹۔

[6] فیروز اللغات اردو جامع، (لاہور: فیروز سنز پرائیوٹ  لمیٹڈ، چوتھی اشاعت، ۲۰۱۱ء) ص۳۰۵۔

[7] فیروز اللغات اردو  جامع،(لاہور: فیروز سنز پرائیوٹ  لمیٹڈ، چوتھی اشاعت، ۲۰۱۱ء)ص۵۹۵۔

[8] Oxford Essential Dictionary, (Oxford University Press, Second edition, 2012) p 456

[9] بدخشانی، مقبول بیگ،فیروز اللغات فارسی  اردو،(لاہور:فیروز سنز پرائیوٹ لمیٹڈ۲۰۰۴ء)،ص۱۷۴۔

[10] بدخشانی، مقبول بیگ،فیروز اللغات فارسی  اردو،(لاہور:فیروز سنز پرائیوٹ لمیٹڈ۲۰۰۴ء)،ص۳۱۳۔

[11] کیلانی، عبدالرحمان، احکام ستر و حجاب،(لاہور: مکتبتہ السلام ،فروری۲۰۰۴ء)، ص۲۲۔

 

[13] https://www.almaany.com/en/dict/ar-en/Translation and Meaning in Almaany English Arabic Dictionary

[14] نوری ،حسین  میرزا،مستدرک الوسائل ،(قم:موسسہ آل البیت لاحیاء التراث،۱۴۰۸ھ) جلد ۳ ، صفحہ ۲۴۴

 

[15] القرآن  ۲۴/۳۱

[16] القشیری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، مترجم نواب وحید الزمان، (لاہور:نعمانی کتب خانہ ،۲۰۰۴م)  

 

[17] السباعی،مصطفیٰ، المراۃ بین فقہ و القانون، (عربی ایڈیشن  -ص۱۱۱۔۱۱۰،ص۲۵۷۔)

 

[18] (القرآن۳۳/۵۹) ترجمہ: پانی پتی، قاضی ثناء عثمانی مجددی ، تفسیرمظہری ،مترجم الازہری، پیر محمد کرم شاہ ،(لاہور:ضیاء القرآن پبلیشر،۲۰۰۲ء)

[19] احمد ،قاری صہیب،عورت کا زیور پردہ،(ریاض:مکتبہ بیت الاسلام۱۴۲۲ھ)،ص۹۔

[20] مودودی، سید ابو الاعلیٰ،پردہ،(لاہور:اسلامک پبلیکیشنز پرائیوٹ لمیٹڈ،اپریل ،۲۰۰۵ء)

[21] الہاشمی،محمد علی،مسلمان عورت اور اس کا اخلاقی و معاشرتی کردار،(لاہور:مسلم پبلیکیشنز،اکتوبر۲۰۱۷ء)

Post a Comment

0 Comments