عاشورا اور خواتین کی ذمہ داریاں
سیدہ
شمائلہ رباب رضوی
شاہ
عبداللطیف یونیورسٹی خیرپورمیرس
مقدمہ:
اوپر جلتا سورج ہے
اور نیچے تپتی ریت ہے ۶۱ ھجری ہے اور میدان کربلا
میں یوم عاشورا ہے اور نواسہ رسولﷺ اپنے پورے خانوادے کے ساتھ
موجود ہیں ایک ایسی تاریخ رقم کرنے کے لئے جس میں زندگی کے
تمام امور پر ایک عملی شکل مل جائے عاشورا کا واقعہ صرف عراق کی سر زمین کربلا میں ہونیوالا ایک واقعہ
نہیں ہے ،بلکہ عاشورا
ایک تحریک، ایک حقیقت ،ایک مشن اور ایک مقصد کانام ہے عاشور کا واقعہ
تمام خصوصیات کا مجموعہ اور مختلف موضوعات پر مشتمل ہے۔ یہ واقعہ احساس ذمے داری،
صبر، استقامت، شجاعت، پرہیزگاری، عقیدہ، اخلاق اور طرز زندگی سکھاتا ہے۔ یہ ایک
ایسا واقعہ ہے جس میں چھوٹے اور بڑے، خواتین اور مرد سب شامل ہیں اور ہر ایک کا
اپنا کردار ہے تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عاشوراکو وجود اور رونق عطا
کرنے والے باایمان اور شجاع مجاہدین در حقیقت اپنی ماؤں کے لیے ایک انمول سرمایہ
تھے۔واقعہ کربلا نے انسانیت کو سرخ رو
کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار کو حیات نو بخشی ہے۔اس عظیم اور بے مثال جنگ میں
جہاں پر مولا امام حسین علیہ السلام کے با وفا ،بہادرفرزندان اور
اصحاب کے بے نظیر کردار موجود ہیں وہاں پر خواتین کی اس عظیم مقصد کے لئے
احساس ذمے داری ، بے مثل قربانیوں سے انکار نا ممکن ہے، جس کو انسانیت کی
تاریخ نے ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت سید الشہدا علیہ
السلام نے بہت سے اصحاب کے مشورے کے
برخلاف اپنے ہمراہ اسلامی معاشرے کے لیے خواتین کو میدان کربلا میں لائے تھے۔کربلا
کی ان بہادرخواتین نے اپنی عمل سے ثابت کردکھایا کہ نواسہ رسول علیہ السلام کربلا
میں خواتین کو بے مقصد نہیں لائے تھے۔روز عاشورا اور بعد از عاشورا کی اٹھائی ہوئی
خواتین کی ذمے داریوں کا قرض آج تک اسلام ناچکاسکا اور نا
چکا سکے گا کیونکہ یہ مثال عاشورا سے تا قیامت تک کے لئے قائم ہوگئی ہے۔
عاشورا ،
خواتین اور ذمہ داریاں:
آج کل
کہا جا تاہے کہ آج کی خواتین کسی بھی
میدان میں مردوں سے پیچھے نہیں ہے،کسی شعبے میں اس کا کردار مردوں کی نسبت کم نظر
نہیں آتا،لیکن اگر حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو اسلام کی آمد کے ساتھ عورت کو
وہ حقو ق مل گئے تھے ،جنہوں نے عورت کے اندر برابری اور فخر کے احساس کو پیدا کیا
اور اسے ناقابلِ تسخیر بنادیا اور اس ہی
سبب ان خواتین نے اپنی
ذمے داریوں کو نبھاتے ہوئے اس دنیا
میں ہونے والی تمام تحریکوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر عظیم پیغمبروں کے
واقعات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ خواتین کا کردار بہت موثر رہا ہے کیونکہ
وہ اپنے دور کی ذمے دار ترین خواتین تھیں۔ حضرت ابراہیم ؑ اورحضرت اسماعیل ؑ کی
تاریخ جناب سیدہ ہاجرہ کےبغیر نامکمل ہے۔
حضرت عیسیٰ ؑ کا نام جناب سیدہ مریم کے
بغیر نہیں آتا۔ ہمارے پیارے نبی اکرم ﷺ کے ساتھا ام المومنین حضرت
خدیجہ سلام اللہ علیہا کی قربانی
نظر آئے گی۔ اس کے علاوہ جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا بھی ہر مشکل میں، ہر جگہ اپنے بابا بزرگوار ﷺاور
اپنے شوہر نامدار حضرت امام علیؑ کے ساتھ
ساتھ نظرآتی ہیں خواتین کسی بھی رشتے میں
کبھی اپنی ذمے داریوں اور اپنے کردار سے کم نظر نہیں آئیں بلکہ ہمیشہ انہوں
نے توقع سے بڑھ کر ہی ذمے داریاں نبھائی ہیں۔خواتین کی گود سے انقلاب جنم لیتا ہے ان ہی کی
تربیت سے معاشرہ خوشحال اور بےخطر ہوتا ہے۔ اگر خواتین کو ان کی ذمے داریوں کا ادراک ہو تو وہ معاشرے کو جنت بنا سکتی ہیں۔ خواتین انسان
ساز ہیں اور ان کا اہم فریضہ انسان سازی، معاشرہ سازی ہی ہے۔اسلامی تاریخ کی دقیق
مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سی مومنہ اور فداکار خواتین گزری ہیں جنہوں نے
سیاسی اور اجتماعی امور میں اپنا کردار ادا کیا ہے ۔ اولاد کو صحیح تربیت
دینے کے علاوہ خود بھی مردوں کے شانہ بشانہ رہ کر دین اورمعاشرے کی اصلاح کی ہے۔
خواتین نے اس دنیا کی بہت سی تحریکوں میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ روز عاشورا نے انسانیت کو سرخرو کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی
اقدار کو حیات نو بخشی ہے۔اس عظیم اور بے مثال جنگ میں جہاں پر امام عالی مقام ؑکے
با وفا،بہادرفرزندان اور اصحاب کے بے نظیر کردار موجود ہیں وہاں پر خواتین کی بے
مثل قربانیوں سے انکار نا ممکن ہے، جسے تاریخ انسانی نے ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا
ہے کیونکہ یہ وہ خواتین تھیں جنہوں نے ناصرف اپنی ذمے داروں کو درک کر لیا تھا
بلکہ ان نفوس قدسیہ کی زندگی اورکردار میں آج کی مسلمان خواتین کیلئے واضح
درس ہے کہ زمانہ کتنا بھی ترقی کیوں نہ کر جائے حالات کتنے بھی سخت کیوں نہ ہو
جائیں سماج کتنا بھی برا کیوں نہ ہو جائے مگر یہ سختیاں اور دشواریاں روز عاشورا کربلا کی سختیوں اور مصیبتوں کے
مقابلہ میں ہیچ ہیں۔اس لئے ہمیشہ اپنے حوصلوں کو بلند رکھیں۔ حق کا ساتھ دیں، باطل
کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہوں تو راستے خود بخود سہل ہو جائیں گے۔جگہ
جگہ پر ان محترم خواتین کا احکام خداوندی کی طرف توجہ دلانا اور ان کی مکمل رعایت
کرنا صرف روز عاشورا تک محدود نہیں ہے
بلکہ دور حاضر کی خواتین کو اس میں احساس ذمے داری کے لازوال کارنامے
ملیں گے دور حاضر کی مسلمان خواتین بھی
اگرروز عاشورا میں موجود خواتین کی تسلیم
و رضا اور جرات و وفا سے سبق حاصل کریں تو معاشرہ
کامیابی کی بلندیوں کو چھو سکتا ہے۔ اپنے پیاروں کے لہولہان جسم اور کٹے
ہوئے سر دیکھ کر بھی کربلا کی بلند ہمت
خواتین نے جس صبر و رضا کا ثبوت دیا جس طرح سے حیاءو فا اور غیرت کا مظاہرہ کیا وہ
اسلامی تاریخ کے ماتھے کا جھومر ہے۔
عاشورا
میں موجود خواتین کو ذمے داریوں کا ادراک:
امام
حسین ؑ کے قافلے والےجب سے کربلا آئے اور کوفہ والوں کی بے وفائی کا پتہ چلا تب سے
لے کر جب ان پر پانی بند کیا گیا اور ان کے پیاروں کو ان کے سامنے شہید کیا گیا تب
تک مسلسل اذیت ناک حالات سے دوچار رہے لیکن عاشقانِ رسول ﷺکے اس قافلے کی احساس ذمے داری ،صبرواستقامت میں ذرہ برابر بھی
کمی نہ آئی۔ نہ ہی عشقِ ﷺ کم ہوا نہ ہی قدم لڑکھڑائے بلکہ ان کا حوصلہ بلند سے
بلند تر ہوتا چلا گیا کیونکہ اس قافلے میں موجود خواتین نے اپنی ذمے داریوں کو امر کرنا تھا۔ آفرین ہے
ان خواتین پر کہ جب ان کے اپنے بھائی، شوہر اور اولاد کو ایک ایک کر کے ان کے
سامنے شہید کیا گیا اور پھر ان کے اجساد کو بے گورو کفن تپتے صحرا میں چھوڑ کر آنا
پڑا تو انہوں نے مردانہ وار ان تمام مصائب کا سامنا کیا۔ ان کو بے پردہ کوفہ و شام
کی گلیوں میں پھرایا گیا لیکن وہ مقصدِ شہادت نہ بھولیں نہ ہی مصیبت سے بچنے کے
لیے یزید ملعون کے سامنے سر جھکایا۔ بلند ہو ان شہزادیوں اور کنیزوں کا مقام جنہوں
نے اپنی اولین و دینی ذمے داری
سمجھتے ہوئے نہایت ہمت و دلیری کے
ساتھ مقصدِ حسین ؑکو زندہ رکھا۔اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر امام عالی مقام
ؑجانتے تھے کہ کربلا میں شہید کر دئیے جائیں گے تو اپنے ساتھ خواتین کو کیوں لے کر گئے، تو یقین جانیئے کہ نواسۂ
رسول ﷺ کا کوئی قدم بھی حکمت سے خالی نہیں، اگر امام حسین ؑصرف مردوں کو لے کر چلے
جاتے اور خواتین کو نہ لے کر جاتے تو پھر
نتیجہ یہ ہوتا کہ حضرت امام حسینؑ اور ان کے
اصحاب کو کربلا میں شہید کر دیا جاتا اور ان کی قربانی کربلا میں دفن ہو کر رہ
جاتی۔ مقصدِ امام حسین ؑ دنیا تک نہ پہنچ
پاتا بلکہ کربلا میں ہی مقید ہو جاتا، جس مقصد کے لیے قربانی دی گئی تھی وہ مقصد
فوت ہوجاتا اور لوگ اسے محض اقتدار کی جنگ ہی سمجھتے رہتے۔ اگر میدانِ کربلا میں
حضرت امام حسین ؑ کی شہادت کا اصل مقصد آج زندہ ہے تو انہی خواتین کے طفیل جنہوں
نے کربلا، کوفہ و دمشق بلکہ ہر مقام پر صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا او ر عام
لوگوں کے سامنے مقصدِ حسین ؑ کوواضح کرنا
اپنی اہم ترین ذمے داری جانا۔یزید نے اپنے
کارندوں کے ذریعے قریہ قریہ شہر شہر یہ جھوٹی منادی کروا دی گئی تھی کہ کچھ
خارجیوں نے جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کوفہ پر حملہ کیا تھا اور ہم نے ان پر
فتح حاصل کی ہے۔ ان کے تمام مردوں کو مار دیا گیا ہے اور ان کے گھر والوں کو شہر
کے گلی کوچوں میں نشانِ عبرت بنا کر پھرایا جائے گا۔ ذرا غور کیجئے کہ اگر امام
حسینؑ اپنے قافلے میں خواتین کو شریک نہ
کرتے تو یزید کی یہ چال کامیاب ہوجاتی اور اصل مقصدِ حسین ؑختم ہو جاتا لیکن اسیر خواتین نے اپنا فریضہ و ذمے داری مانتے ہوئے عوام پر یہ بات ثابت کر دی کہ یہ جنگ اسلام کی
بقا کی تھی اقتدار کی نہیں اور جنگی غیر مسلم نہیں بلکہ آلِ رسول ﷺ تھے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا
کہ اگر اسلام زندہ ہے امامِ حسین ؑ کی قربانی اور شہادت کی بنا پر، تو نامِ حسین ؑ
زندہ ہے شہزادی زینب سلام اللہ علیہا اور انکے ساتھ شریک خواتین کی قربانی و
احساس ذمے داری کی بنا پر ۔ایک اور
وضاحت کرتے چلیں کہ کچھ لاعلم لوگ اسے آج
بھی اقتدار کی جنگ ہی کہتے ہیں۔ جان لیں کہ اقتدار ایک حاکمیت کے بھوکے کی خواہش
کے سوا کچھ بھی نہیں اور خواہشیں اندوہ ناک حالات میں جب جان اور عزت داؤ پر لگ
جائے، دم توڑ جاتیں ہیں لیکن عظیم مقصد اپنے اند رعظم حوصلہ اور استقامت رکھتا ہے
اور عظیم مقاصد کے حامل ہی ایسی مصیبتوں کا مقابلہ کرتے ہیں جو کہ پہاڑوں کا سینہ
بھی چیر دیں۔ چونکہ اس جنگ کا مقصد اسلام کو اصل ڈگر پر لانا تھا اسی لیے نہ تو
کوئی مرد جان قربان کرنے سے گھبرایا اور نہ ہی ساتھ آنے والی خواتین ڈگمگائیں اور
جب انہیں بے پردہ اور ننگے پاؤں کوفہ کی تپتی گلیوں میں پھرایا گیا تو اپنی
مصیبتوں پر رونے کی بجائے خطبوں اور نوحہ گری کے ذریعے امام حسین ؑ کے مقصد اور قربانی کو زندہ رکھنے کی کوشش
میں لگی رہیں جنہوں نے اپنے صبر اور حوصلے سے کربلا اور اس کے بعد اپنے کردار سے
ایک خاص تاریخ رقم کی اس کا سبب عاشورا
میں موجود خواتین کا اپنی ذمے داریوں کا
ادراک تھا۔ عاشورا کی
شہادت و اسیری کے دوران خواتین نے اپنی وفاداری احساس ذمے داری اور ایثار و قربانی کے ذریعہ
اسلامی تحریک میں وہ رنگ بھرے ہیں کہ جن کی اہمیت کا اندازہ لگانا بھی دشوار ہے جو
رہتی دنیا تک کی خواتین کے لئے ذمے داری
نبھانے کی اعلیٰ مثال ہے ۔باپ، بھائی،
شوہر اور کلیجے کے ٹکروں کو اسلام و قرآن کی بقا کے لئے راہ خدا میں مرنے کی اجازت
دے دینا اور زخم و خون سے رنگین جنازوں پر سجدہ شکر ادا کرنا آسان بات نہیں ہے اسی
چیز نے ضمیر فروش قاتلوں کو انسانیت کی نظروں میں ذلیل و خوار کردیا ماوں، بہنوں
اور بیٹیوں کے ضبط اشک نے مردہ دلوں کو بھی جھنجوڑ کے رکھ دیا مگر وہ خود پورے
وقار و جلال کے ساتھ قتل و اسیری کی تمام منزلوں سے گزر گئیں اور شکوے کاایک لفظ
بھی زبان پر نہ آیا۔ نصرت اسلام کی راہ میں پہاڑ کی مانند ثابت قدم رہیں اور اپنے
عزم و ہمت اسلام کے لئے اپنے اوپر
عائد ذمے داریوں کے تحت کوفہ و شام کے
بازاروں اور درباروں میں حسینیت کی فتح کے پرچم لہرادئیے روز عاشورا میں موجود خواتین
نے جو یہ احساس ذمے داری نبھایا وہ
صرف روز عاشورا کے لئے نہیں تھا بلکہ تا قیامت تک کی خواتین کے لئے اپنی زندگی کے ہر موڑپر آنے والی ذمےداریوں سے
نبرد آزما ہونے کا درس ہے۔ حضرت زینب ؑ
اور ان کی ہم قدم و ہم آواز ام کلثوم ؑ، رقیہ ؑ، رباب ؑ، لیلا ؑ، ام فروہ ؑ،سکینہ
ؑ، فاطمہ ؑ اور عاتکہ ؑ نیز امام ؑ کے اصحاب و انصار کی صاحب ایثار خواتین نے ذمے
داری، شجاعت اور ایثار و قربانی کے وہ لازوال نقوش ثبت کئے ہیں جن کو کسی بھی صورت
مٹایا نہیں جا سکتا۔چنانچہ عصر عاشورہ کو امام حسین ؑ کی شہادت کے بعد جب اہل حرم
کے خیموں میں آگ لگا دی گئی، بیبیوں کے سروں سے چادریں چھین لی گئیں تو جلتے خیموں
سے نکل کر مصیبت زدہ خواتین اور بچے کربلا
کی جلتی ریت پر بیٹھ گئے۔امام وقت سید سجاد ؑ غشی کے عالم میں تھے،جناب زینب ؑ بنت
علی ؑنے اپنی بہن ام کلثوم ؑ کے ساتھ آگ کے شعلوں سے خود کو بچا بچا کر بھاگتے
بچوں کو ایک جگہ جمع کیا، کسی بچے کے دامن میں آگ لگی تھی تو کسی کے رخسار پر
طمانچوں کے نشان تھے، کوئی ظالموں کی یلغار کے دوران پاو ں تلے دب کرجان دے چکا تھا تو کوئی پیاس کی شدت
سے جاں بلب تھا۔اضطراب و بے چینی کی قیامت خیز رات حسین ؑ کی بہنوں نے حضرت عباس ؑ
بن علی ؑ ؑکی طرح ذمے داری پہرہ دیتے ہوئے ٹہل ٹہل کر گزاردی۔گیارہ محرم کی صبح اسیری کے پیغام کے ساتھ نمودار
ہوئی۔ لشکر یزید شمر اور خولی کی سرپرستی میں رسیاں اور زنجیریں لے کر آگیا۔
خواتین رسیوں میں جکڑدی گئیں اور بیمارسید
سجاد ؑ کے گلے میں طوق اور ہاتھوں اور پیروں میں زنجیریں ڈال دی گئیں۔بے کجاوہ
اونٹوں پر سوار، خواتین اور بچوں کو قتل
گاہ سے لے کر گزرے اور بیبیاں کربلا کی جلتی ریت پر اپنے وارثوں اور بچوں کے بے سر
لاشے چھوڑ کر کوفہ کی طرف روانہ ہوگئیں۔لیکن اس ہولناک اسیری کی دھوپ میں بھی اہل
حرم کے چہروں پرعزم و استقامت کی کرنیں بکھری ہوئی تھیں۔ نہ گھبراہٹ، نہ بے چینی،
نہ پچھتاوا نہ شکوہ کیونکہ انہوں نے آئندہ نسلوں کی خواتین کو احساس ذمے داری کے وہ بے مثال عملی مظاہرے
دینے تھے جو آج تک چودہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی تازہ ہیں اور ان کا نعم البدل آج
تک موجود نہیں ۔اعتماد و اطمینان سے سرشار
نگاہیں اور نور یقین سے گلنار چہرے۔ مظلومیت کا یہی وہ رخ ہے جو بتاتا ہے کہ امام
حسین علیہ السلام اپنی اس انقلابی مہم میں اہل حرم کو ساتھ لے کر کیوں نکلے تھے ؟
اور جناب زینب ؑ کو کیوں بھائی کی ہمراہی پر اس قدر اصرار تھا ؟ اور ابن عباس کے
منع کرنے پر کیوں امام حسین ؑ نے کہاتھا کہ’ خدا ان کو اسیر دیکھنا چاہتا ہے‘۔ صرف
ماوں کی گودیوں سے شیرخوار بچوں کی قربانیاں، اصل مقصود نہیں ہوسکتیں۔ جوان بیٹوں
اور بھائیوں اور نوخیزوں اور نونہالوں کی لاشوں پر صبر و شکر کے سجدے بھی خواتین
کی ہمراہی کا اصل سبب نہیں کہے جا سکتے۔ بلکہ اہل حرم کی اسیری، کتاب کربلا کا ایک
مستقل باب ہے اگر حسین ؑ خواتین کو ساتھ نہ لاتے اور انہیں اسیروں کی طرح کوفہ و
شام نہ لے جایا جاتا تویزید کے شاطر نمک خوار صحرائے کربلا میں پیش کی گئی خاندان
رسول کی عظیم قربانیوں کو رائیگاں کردیتے۔ یزیدی ظلم و استبداد کے دور میں جان و
مال کے خوف اور گھٹن کے ساتھ حصول دنیا کی حرص و ہوس کا جو بازار گرم تھا اور کوفہ
و شام میں بسے مال و زر کے بندوں کے لیے بیت المال کا دہانہ جس طرح کھول دیا گیا
تھا، اگر حسین ؑ کے اہل حرم نہ ہوتے اور حضرت زینب ؑ اور امام سجاد ؑکی قیادت میں خواتین
نے خطبوں اورتقریروں سے جہاد نہ کیا ہوتا تو سرزمین کربلا پر بہنے والا شہدائے راہ
حق کا خون رائیگاں چلاجاتا اور رسل و رسائل سے محروم دنیا کو برسوں خبر نہ ہوتی کہ
آبادیوں سے میلوں دور کربلا کی گرم ریت پر کیا واقعہ پیش آیا اور اسلام و قرآن کو
کس طرح تہہ تیغ کردیا گیا۔روز عاشور جب خون تلوارپر غالب نظر آیا، جب کربلا کی تپتی زمین پر خانوادہ رسول ﷺنے اسلام
کی حیات کے لئے اپنی زندگیوں کے چراغ ایسے گل کیے کہ ان کی روشنی ہر اندھیرے میں
حق کی تلاش کرنے والوں کو آج بھی راستہ دکھاتی ہے ایسے میں خواتین نے اس کی تشہیر کو اپنی فرض ذمے داری بنا لیا ۔واقعہ کربلا میں موجود خواتین کی عمر کی کوئی
حد نہیں تھی جو یہ ذمے داریاں ا
حسن طریقے سے نبھا رہی تھیں ان میں
کمسن ترین سکینہ بنت الحسین ؑ سے لے کر
پیر سن اماں فضہ تک موجود تھیں تاکہ ہر دور اور ہر عمر کی عورت کو ذمے داریوں
کو سمجھنے اور اس کا احساس کرنے کا درس مل سکے۔
جوانوں کو جنگ کی تشویق اور ترغیب
دلانے کی ذمے داری:
جب دشمنان امام اور فوج امام ؑکے درمیان ایک غیر عادلانہ جنگ شروع ہوئی تو
ان دلیر اور باکردار خواتین نے جنگ کے ظاہری نتائج سے آگاہ ہونے کے باوجود
اپنے مردوں کو اس عظیم کار خیر کی تشویق اور ترغیب دلانے کی ذمے داری کو اپنے رشتوں پر مقدم رکھا ۔کربلا کے واقعے
میں بہت سے ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ خواتین اپنے شوہروں ، بھائیوں اور بیٹوں حتی
کہ معصوم بچوں کو بھی کو حوصلہ دیتی تھیں اور کوشش کرتی تھیں کہ کسی بھی صورت میں
کوئی سستی کا مظاہرہ نہ ہو۔جیسا کہ عبداللہ ابن وہاب کلبی کی ماں کے بارے میں
مورخین نے لکھا ہے کہ اپنے جوان بیٹے سے کہنے لگی بیٹا اگر مجھے خوش کرنا ہے تو آج
نواسہ رسول علیہ السلام کی مدد کرکے خوش کریں ،جب عبداللہ میدان جنگ میں جا کر کچھ
منافقین کو واصل جہنم کر کے واپس آئے اور کہنے لگے کہ اے مادر گرامی کیا اب آپ مجھ
سے راضی ہیں؟ تو اس وقت اس کی ماں کہنے لگی میں تم سے اس وقت تک راضی نہیں ہونگی
جب اپنی جان رسول خدا ﷺ کے فرزند پر قربان کرتے ہوئے جام شہادت نوش نہ کرلو۔
اسی طرح عمرو ابن جنادہ کی ماں "بحریہ"اپنے شوہر کے شہادت کے بعد گیارہ سالہ بیٹے کو ترغیب دلا کر میدان کی طرف
روانہ کیا اور جب دشمن نے بیٹے کوبھی شہید
کرکے اس کے سرکو اس کی طرف پھینکا تو یہ کہ کر واپس کیا کہ ہم جو چیز راہ خدا میں
دیتے ہیں اسے واپس نہیں لیتے ۔ یہ ان عظیم ماؤں کی ہمت تھی کہ اسلام کی
سر بلندی کے لیے انہوں نےاپنی عمر بھر کی کمائی جناب علی اکبرؑ جیسے کڑیل جوان کو
امام حسین ؑکے لئے عظیم مشن پرقربان کیا تو کہیں اپنے چھ ماہ کے ننھے شیر خوار کو
امام کا مجاہد بنا کر پیش کیا اور
کہیں اپنی آنکھوں سے اپنے پیارے نوشاہ بیٹے کی جسم مبارک کے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھ
رہی تھیں ۔
تربیت اگر ایسی ماؤں کی ہو تو پھر فرزند تاریخ میں باقی رہ جانے والے سپوت کیوں نہ
بنیں یہ ہی وہ ہمت و ذمے داری کے مظاہرے
تھے جس نے انقلاب ایران کی عورتوں کو اپنی
ذمے داری نبھانے کا حوصلہ دیا ۔
صبر واستقامت:
خواتین کربلا کی ایثاراور صبر استقامت
تعجب انگیز ہیں ۔یہ خواتین اپنی زندگی کی سب سے عزیز سرمایوں کو راہ خدا میں
دیتے ہوئے بھی خوشی کا اظہار کرتی تھیں۔اپنے شوہر ،بھائیوں اور جوان بیٹوں کی
شہادتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی ان کے ہمتوں اور جذبوں میں لغزش نہیں
آئی۔ یہاں تک بعض خواتین اپنے عزیزوں کے لاشوں کو جب خیمہ گاہ لائے جاتے تو خیمے
سے باہر تک نہیں نکلتی اور اپنے احساسات کو چھپا کر رکھتی اور بلند آواز سے گریہ
وزاری سے اجتناب کرتی تھیں۔جیسا کہ علی اصغر کے لاشہ مبارک کو امام ؑ دفن کرنے لگے
تو ان کی ماں بیٹے کی تدفین کیلئے خیمے سے
باہر نہیں آئیں،اسی طرح علی اکبر کا لاشہ لایا گیا تو ان کی ماں نے خیمے سے باہرنکلنے سے اجتناب کیا۔ ہانی
الکوفیہ سے جناب وہب کلبی نے ۲۳ ذی الحجہ۶۰ ھ کو عقد کیا ۔ناسخ
التواریخ نے لکھا ہے کہ شب زفاف کو ۱۷ دن ہی
گزر ے تھے کہ کربلا میں پہنچے ۔ وہب جب جہاد کرتے کرتے شہید ہوگئے تو ان کی بیوی نے سرہانے آکر اس کے چہرے سے خون کو صاف کیا ۔
شمر ملعون نے اپنا غلام بھیجا جس نے اس خاتون کے سر پر وار کیا اور وہ بھی شہید
ہوگئیں۔ اور وہ پہلی خاتون تھی جو امام حسین ؑ کے لشکر میں سے شہید ہوئیں۔
جنگ میں شرکت:
تاریخ اسلام میں بہت سے جنگوں میں
خواتین نے شرکت کی ہے لیکن کربلا میں موجود خواتین کی کردار مختلف ہیں
۔اپنے پیاروں کی قربانیاں پیش کرنے کے بعد بھی بہت سے خواتین امام علیہ السلام کی
مدد کیلئے خیموں سے نکل کر دشمن پر حملہ آور ہوئیں ۔عمرو ابن جنادہ کی ماں بحریہ
اپنے شوہر اور بیٹے کی شہادت کے بعد خیمے کے ستون کو ہاتھ میں لے کر میدان میں
آگئی اور عمر سعد کے دو فوجیوں کو جہنم رسید کیا اور امام حسین علیہ السلام کے حکم
پر واپس خیمے میں پلٹیں روز عاشورا کے اسی
جوش وجذبے نے دور حاضر کی خواتین میں باطل کے خلاف ڈٹ جانے کا احساس ذمے داری پیدا کیا ہے خواہ وہ کشمیر ہو،لبنان ہو شام یا فلسطین ۔
مردوں کے حوصلہ افزائی:
خواتین کے مردوں کے مقابلے میں حوصلے کمزورہوتے ہیں مشکلات اور پریشانی کے موقع
پر انکے حوصلے جلد ان کا ساتھ دیناچھوڑ دیتے ہیں لیکن کربلا میں ہزاروں مشکلات اور
پریشانی کے باوجود روز عاشورا کی خواتین نے حبیب ابن مظاہر جیسے مرد پیر سے لے
کر علی اصغر جیسے کمسن کی قربانیاں پیش کیں تاریخ میں کہیں یہ نہیں ملتاکہ کسی خاتون نے
اپنے شوہر ،بیٹے یا والد سے شکوہ کیا ہو کہ ہمیں یہاں کیوں لے آئے، بلکہ تین دن کے
پیاس اور بھوک کے باوجود ان کے حوصلے مزید بلند ہوتے گئے اور اپنے مردوں کو شوق
شہادت دلاتی رہی کیونکہ ان کا احساس ذمے داری ان پر غالب تھا جیسے دور حاضر میں
فلسطین و، شام و یمن کی خواتین اس عمل
ذمے داری کو دور حاضر میں نبھا رہی ہیں ۔
بچوں کو تسلیاں دینا:
عاشورہ کے دن خواتین کے اوپر بہت بڑی
ذمہ داریاں عائد تھیں انہوں نے نہ صرف اپنے پیاروں کی شہادتوں کو برداشت کیا بلکہ اس
عظیم ظلم و ستم سے سہمے ہوئے بچوں کو سنبھالنا اور انہیں تسلیاں دینا بھی انہی کی
ذمہ داری تھی۔ جب خیمہ گاہ حسینی سے آگ کے شعلے بلند ہوئے تو ہراسان ہو کر میدان
کربلا کے طرف نکل گئے اور شام غریبان انہی خواتین
نے یتیمان آل رسول ﷺ کو تلاش کر کے
دوبارہ خیموں میں جمع کیا اور جب اسیر ہو کر چلے تو شہزادی اُمِ کلثوم
سلام اللہ علیہا نے تمام خواتین اور بچو ں میں ان کے حصے کی ذمے داری جگاتے ہوئے ان کو نصیحت کی کہ جیسے ہی کسی شہر میں داخل ہوں تو
باآوازِ بلند قرآن کی تلاوت کرتے رہیں۔ ایسا کرنے سے لوگ جان گئے کہ یہ لوگ نہ صرف
مسلمان ہیں بلکہ ان کے طریقہ تلاوت سے ظاہر ہوتا تھا کہ کسی اعلیٰ عربی خاندان سے
ان کا تعلق ہے۔
قیمتی اشیا کی حفاظت:
عاشورا اور اس کے بعد خواتین کی اہم
ذمہ داریوں میں سے ایک دین کے قیمتی چیزوں کی حفاظت ، خاندان نبوت پر لگائے
گئے الزمات کا جواب دینا تھا ۔ یہ خواتین پابند رسن اسیر تھیں ،ان کے خیمے جلائے
گئے تھے ،ان کے پیاروں کو بے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا تھا ،ان کے زیورات
اور لباسوں کو غارت کیا گیا تھا اس کے باجود عظمت اہل بیت پر کو ئی آنچ آنے نہیں
دیا۔ امام علیہ السلام کی دی ہوئی امانتوں کی حفاظت میں اپنی جانیں دینے کے لئے
تیار ہو جاتی تھیں مگر ان پر کسی بھی قسم کی ظلم و زیادتی برداشت نہیں کی۔
بنی اسد کی خواتین:
جنگ عاشور اپنے اختتام کو پہنچنے کے بعد جب عمر ابن سعد کے
حکم پر اپنے فوجیوں کے لاشوں کو دفن کیا ۔ جب کہ نواسہ رسول ﷺ ،جگر گوشہ بتول و
علی علیہ السلام اور ان کے باوفا ساتھیوں کے لاشے کربلا کے تپتی زمین پر بے
گور وکفن پڑے رہے اور کسی میں ہمت نہیں ہوئی کہ ان کو دفنا دیا جائے تو اس وقت
میدان کربلا سے کچھ ہی دور واقع قبیلہ بنی اسد کی خواتین اپنی ذمے داری
سمجھتی ہوئی ہاتھوں میں بیلچے اٹھائے
تدفین شہدا کے لئے نکل آئیں تو ان کے مردوں کو غیرت پید ا ہوئی اور ان
کی مدد کے لئے آئے یوں شہدا کی تدفین ہوئی اور آج وہ مرقد عظیم عبادت گاہ بن چکے ہیں ۔
عاشورہ کے بعد خواتین کی ذمے
داریاں:
اصل میں خواتین کی حقیقی ذمے داریاں عاشورا کے بعد شروع ہوتی ہیں ۔جب عاشورا کے اس واقعے میں امام سجاد علیہ
السلام کے علاوہ تمام مردان حسینی کو شہید کیا گیا تو یہ با عظمت خواتین اپنے
کندھوں پر حقیقت کربلا کے پیغام رسانی کا ایک سنگین ذمہ داری اٹھاکر پابند رسن ہو
کر نکلیں ۔یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہ
خواتین نہ ہوتیں تو بنی امیہ کے جھوٹے
پروپیگنڈوں اورتبلیغات کے ذریعے شہدا کا
ناحق خون جو کربلا کی سر زمین پر بہایا گیا تھا اپنے اصلی مقصد حاصل کرنے میں شائد کامیاب نہ
ہوتا ۔اسی عظیم مقصد کی خاطر امام حسینؑ نے
اپنے ساتھ خواتین کو بھی کربلاکی تپتی ریت پر لے کر آئے تھےکیونکہ وہ جانتے تھے کہ
یہ خواتین اپنی احساس ذمے داری کی روش سے وہ
ابدی حیات دیں گی واقعہ عاشورا کو جو ہماری تلواریں نا دے سکیں گی۔
عاشورہ کے بعد اپنے
پیاروں سے جدائی کاغم ،شہدا پر گریہ و ماتم کرنے کی موقع نہ ملنے کا صدمہ ،اپنے
اور اہل وعیال کے بے سر پرست ہونے کا دکھ ،ظالموں کی طرف سے مسلسل ملنے والی
ذہنی و جسمانی تکالیف اور سب سے بڑھ کر دشمن کے نرغے اور حصار میں ہونے کے
احساس کے باوجود صبر و وفا کی پیکر ان خواتین کے حوصلے بلند تھے
اور اپنے اوپر عائد ذمے داری کو وفاداری سے نبھاتی رہیں ۔ان خواتین نے خواہ وہ
دشمن کا دربار ہو یا شام و کوفہ کا بازار کہیں پر بھی دشمن کو یہ محسوس ہونے
نہیں دیا کہ یہ مظلوم اور اسیر ہیں اور حالات سے خوفزدہ ہیں بلکہ ہر جگہ
اپنے قول اور فعل سے یہ بتاتی چلیں کہ اصل میں اس معرکہ کا فاتح حسین ابن علی علیہ
السلام ہیں۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا
کردار ان تمام خواتین کے کردارمیں سے نمایاں ہے آپ نے شام وکوفہ کے درباروں
میں ان تمام قیدیوں کی رہنمائی اور سر پرستی کے ساتھ دشمن کے سامنے بھی اپنے
موقف کو واضح اندازمیں بیان کیا۔ بی بی زینب وہ ہستی ہیں جن کے خطبوں سے کربلا کی تحریک کو
تا قیامت اسی شدید جذبے سے یاد رکھا جائے گا جیسے وہ صدیوں کی بات نہیں کل ہی کا
قصہ ہو۔ حضرت زینب قوت برداشت اور صبر کے
اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھیں۔ حضرت امام حسین ؑکی شہادت کے بعد آپ کی تین اہم ذمہ
داریوں کا آغاز ہوا تھا جن کوآپ نے کمال کامیابی کے ساتھ نبھایا۔ سب سے بڑی ذمہ
داری امام وقت ؑکی تیمارداری اور دشمن سے
ان کی حفاظت‘ دوسری ذمہ داری ان خواتین اور بچوں کی حفاظت، جو بیوہ ہو چکی تھیں
اور بچے یتیم۔ تیسری ذمہ داری کربلا کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا
تھا۔ دم توڑتی انسانیت کو زندہ کرنے کا جو ارادہ حضرت امام حسین ؑ گھر سے لے کر
نکلے تھے اس کو انجام تک کرداراور گفتار کے ذریعے شہزادی زینب نے پہنچایا۔ انہی کی سربراہی میں اہل حرم نے کوفہ و شام کے گلی کوچے میں اپنے
خطبات کے ذریعے یزیدیت کے ظلم کا پردہ چاک کیا اور رہتی دنیا تک ہونے والی کسی بھی
سازش کو بروقت بے نقاب کر دیا۔ ثانی زہرا سلام اللہ علیہا نے شام غریباں سے شروع ہونے
والی اپنی اس ذمہ داری کو بخوبی نبھایا۔ چاہے کربلا کی شام غریباں ہو یا کوفہ و
شام کے بازار و دربار، آپ نے ہر جگہ دشمنوں کی سازشوں اور اپنے بھائی کے مقصد
شہادت کو کھل کر بیان کیا۔ آپ نے نہ صرف اسیران کربلا کے قافلے کی حفاظت اور قیادت
کی بلکہ اپنے خطبات سے کوفیوں اور شامیوں کے سامنے یزیدیوں کی حقیقت کھول کر رکھ
دی۔ آپ نے اپنے بابا فاتح خیبر ؑکے لہجے میں خطبے دے کر ظلم کے ایوانوں پر لرزہ
طاری کر دیا اور جو یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے مظلوم کربلا کو شہید کر کے اپنے
راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ دور کر دی ہے تو حیدر کرار ؑکی شیردل بیٹی نے ان کی یہ
غلط فہمی دور کر دی۔یہ بات تاریخ کے اوراق پر لکھی واضح دکھائی دیتی ہے کہ دین
اسلام کو بقا امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی شہادت سے نصیب ہوئی اور اس
مقصد کی تکمیل سیدہ زینب سلام اللہ علیہا کی اسیری اور کوفہ و شام کے بازاروں اور
درباروں میں ان کے حیدری لہجے کے خطبوں سے ممکن ہوئی۔یعنی دین مبین اسلام کی ترویج یقینا امام حسین علیہ السلام کی
شہادت سے ہی ہوئی مگر اس کی تکمیل جناب زینب سلام اللہ علیہا کے کھلے
سر بازاروں میں جانے سے ہوئی۔امام حسین علیہ السلام کے اہداف کو مختلف
مقامات پر خاص طور سے دربار یزید میں اسلامی ملکوں کے نمائندوں کے درمیان ضمیروں
کو جھنجھوڑ دینے والا بینظیر خطبہ دینا اور بنی امیہ کی حکومت اور اس کی
افکار کو زمانہ بھر کے سامنے رسوا کر دینا یقینا یہ دلیری اور شجاعت فقط اور فقط
عقیلہ بنی ہاشم جناب زینب سلام اللہ کیساتھ مختص ہے۔دختر علیؑ و بتول سلام
اللہ علیہا کی دین کے لئے احساس ذمےداری، دلیری اور شجاعت کے ساتھ ساتھ
تقوی اور دین داری کی یہ حالت تھی کہ اتنے سخت حالات میں بھی اپنی نماز شب کو نہیں
بھولیں اور حالت اسیری میں بھی نماز کی ادائیگی ترک نہ کی اس طرح سب پر اہمیت نماز
بھی واضح کر دی اور یہ بھی ثابت کر دیا کہ جنہیں باغی قرار دے کر شہید کیا گیا وہ
اسلام کے اصل وارث تھے۔ اس کے بعد بازاروں اور درباروں میں دیئے گئے خطبات بھی
تاریخ کے سنہرے ابواب ہیں ان خطبات نے ہی اس صورت حال کو تبدیل کر دیا جو یزیدیوں
نے اپنے حق میں بنائی تھی۔
کسی
بھی تحریک کا پیغام عوام تک پہنچانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کربلا کی تحریک
کے پیغام کو عوام تک کربلا کی اسیر خواتین نے پہنچایا ہے۔ جناب زینب سلام اللہ
علیہا کے بے مثال کردار اور قربانیوں سے تاریخ کربلا روشن نظر آتی ہے۔کربلا کی ان
مثالی و احساس ذمے دار ی سے بھرپور خواتین نے ملوکیت کی پروردہ قوتوں کے مقابل اپنے
معصوم بچوں کو بھوک وپیاس کی شدت سے بلکتا ہوا دیکھنا گوارا کیا، یہاں تک کہ اپنے
سہاگوں کو بھی راہ خدا میں قربان ہوتے دیکھا لیکن رسول اللہ ا کے دین کی کشتی
انسانیت کو ڈوبنے نہیں دیا اور اپنی اسلام کے لئے جو ذمے داری تھی انہیں احسن
طریقے سے برتا۔ واقعہ کربلا کو بے نظیر ولاثانی بنانے میں خواتین کربلا کے بے مثل
ایثار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ معرکہ کربلا میں اگر خواتین نہ
ہوتیں تو مقصد قربانی سید الشہدا امام حسین ؑادھورا ہی رہ جاتا۔ یہی سبب ہے کہ
نواسہ رسول ؐملوکیت کے مقابلے میں بیداری اُمت کی تحریک میں اپنے ہمراہ اسلامی
معاشرے کی مثالی خواتین کو میدان کربلا میں لائے تھے۔
خلاصہ بحث :
اللہ
نے خواتین کو عزت و احترام کا وہ بلند مقام بخشا جو اس کی اصل اور فطرت کے عین
مطابق ہے۔عورت احساس ذمے داری سے
لبریز وہ افضل و برتر وجود ہے جو خود اور
پورے معاشرے کو سعادت اور نیک نامی کے ساتھ ساتھ عظمت و نیک بختی کی سعادت
کے راستہ پر گامزن کرسکتی ہے۔ یہ عورت ہی ہے جس نے کربلا میں امام
حسین علیہ السلام کے ساتھ مل کر چراغ انسانیت کو تا قیامت روشن کردیا ہے۔ مرد اور
عورت دونوں معاشرہ اور جامعہ کوتشکیل دینے میں برابر کے شریک ہیں۔ اسی طرح اس
معاشرے کی حفاظت کرنے میں بھی ایک دوسرے کےمحتاج ہیں۔ فرق صرف طور وطریقے میں ہے ۔معاشرہ
سازی میں خواتین کاکردار دو طرح سے نمایاں
ہوتا ہے:
۱-پہلا کردار غیر مستقیم اور ناپیدا ہے جو اپنے بچّوں کی صحیح
تربیت اور شوہر کی اطاعت اور مدد کرکے اداکرتی ہے ۔
۲- دوسرا کردار مستقیم اور حضوری ہے جو
خود سیاسی اور معاشرتی امور میں حصہ لےکراپنی فعالیت دکھاتی ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ
اگر خواتین کاکردار مردوں کے کردار سے بڑھ کر نہیں ہے تو کم بھی نہیں ۔
عظیم
شخصیات جنہوں نے معاشرے میں انقلاب پیدا کئے یا علمی درجات کو طے کئے ہیں ،ان کی
سوانح حیات کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے ان کی کامیابی کاراز دو شخصیتوں کی فداکاری
کا نتیجہ ہے، ایک وہ باایمان اور فداکار ماں ، جس کی تربیت کی وجہ سے اس کی اولاد
کامیابی کے عظیم مقام تک پہنچ گئی ہیں ۔ جیساکہ امام خمینی (ره) نے فرمایا : ماں
کی گود سے انسان کی معراج شروع ہوتی ہے ۔چنانچہ سید رضی (ره)اور سید مرتضی علم
الہدی (ره)علمی مدارج کو طے کرتے ہوئے جب اجتہاد کے درجے پر فائز ہوئے تو ان کی
مادر گرامی کو یہ خوش خبری دی گئی تو کہا : مجھے اس پر تعجب نہیں ، کیونکہ میں نے
جس طرح ان کی پرورش کی ہے ، اس سے بھی بڑے مقام پر ہونا چاہئے تھا ۔ دوسرا وہ باوفا اور جان نثار بیوی ، جس کی مدد
اور ہمکاری کی وجہ سے اس کا شوہر کامیابی کے بلند وبالا درجے تک پہنچ جاتا ہے ۔خدا وند عالم نے انسانوں میں سے
مردوعورت کو ایک دوسرے کیلئے مددگار ،محافظ ، ایک دوسرے کے لئے پردہ اور ایک
دوسرے کے لئے باعث عزت بنا کر خلق کیا ۔ اسی لئے قرآن مجید میں ارشاد باری
تعالٰی ہے ۔ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لهنّ اس آیت مجیدہ میں ایک
دوسرے کو لباس سے تعبیر کیا ہے ۔ یعنی لباس گرمی و سردی سے بچاتا ہے ،مرد اور عورت
بھی مشکل حالات میں ایک دوسرے کاساتھ دینے والا ہو ۔لباس عیوب انسانی کو چھپاتا ہے
،مرد عورت بھی ایک دوسرے کے عیوب کو چھپانے والا ہو ۔ الغرض تمام صورت میں
مرد و عورت ایک دوسرے کے ساتھ دئیے بغیر معاشرے میں آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے ۔ کہا
جاتا ہے ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ،خواہ وہ بیوی کی صورت
میں دل بہلا کر حوصلہ دینے والی ہو،یا بیٹی کی صورت میں دل کا چین بن کر مرد کو
سکون بخشتی ہو ،یا ماں کی صورت میں خلوص دل سے دعائیں دینے والی ہو ،یا بہن کی
صورت میں ایک ہی ساتھ ہر مشکل میں بھائی کا ساتھ دینے والی ہو ۔اسلام تاریخ کے
مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مقام اور ہر موڑ پر خواتین کا کردار موجود ہے ۔ یہی وجہ
تھی کربلامعلی کے اس عظیم انقلاب میں بھی ابتدا سے ہی خواتین کا کردار مردوں کے برابر ہے ۔کربلا
کی یہ عظیم تحریک اور سید
الشہداءؑکی یہ عظیم قربانی آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہونے کی وجہ ثانی زہرا
سلام اللہ علیہا اور دیگر خواتین کا ہی کمال ہے ۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ
"کربلا در کربلامی ماند اگر زینب نبود"اگر علی کی بیٹی ،محمدﷺ کی نواسی
اور حسن و حسین علیہما السلام کی بہن زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا نہ
ہوتی تو کربلا کی تحریک کا مقصد اور ہدف کربلا کے سر زمین میں ہی دفن ہوجاتا
۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر خواتین احساس ذمے داری کو نبھاتے ہوئے حضرت امام حسین
ؑکا ساتھ نہ دیتیں تو اُمت مسلمہ کی بیداری کی یہ تحریک کبھی کامیاب نہ ہوتی بلکہ
یہ کربلا کے میدان میں ہی ختم ہو جاتی اور دور حاضر کی خواتین کے پاس ہمت و حوصلے
کی کوئی مثال نا ہوتی۔ ان خواتین نے ہی اس واقعہ کی یاد کو زندہ جاوید بنا دیا۔
کربلا میں امام حسین ؑکے انصار و مجاہدین
کو ان کی ماؤ ں اور بیویوں نے ہمت اور حوصلہ دیا کہ تم سے زیادہ قیمتی جناب فاطمہ
زہرا سلام اللہ علیہا کے فرزند ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے ہوتے ہوئے دشمن ان کو
نقصان پہنچا دے، اگر ایسا ہوا تو ہم روز محشر سیدہ زہرا کو کیا منہ دکھائیں گے۔پروردگارا ہماری خواتین کو بھی ان
عظیم خواتین سے درس لیکر تعلیمات محمدﷺ وآل محمد علیہم السلام کی دفاع کے لئے عاشورا
کی خواتین وکردار زینبی ادا کرنے اور ہمیں حسین ابن علی
علیہما السلام کی سیرت مبارکہ پرچلنے اور قیامت کے دن انہی ہستیوں کی شفاعت نصیب
فرما۔آمین یارب العالمین۔
0 Comments
Make Sure to Drop your valuable Feedback!