نہج البلاغہ اور وحدت امت کی ضرورت
تمہید
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
کیا نشاندہی کی ہے علامہ اقبال نے اس مصرعہ میں ،ذرا سوچنے کی بات ہے کیا واقعی زمانے میں ہم ایسے پنپ سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب لینے کے لئے بعد از قرآن مجید سب سے معتبر کتاب نہج البلاغہ جسے اخ القرآن بھی کہتے ہیں اس کی جانب رجوع کرتے ہیں ۔ یہ علم کے خزانوں سے بھرپور کارنامہ سید رضی نے چوتھی صدی کے آواخر میں امام علی علیہ السلام کے خطبات ، مکتوبات اور کلمات قصار کی صورت میں یکجا کرکے کیا ہے ۔نہج البلاغہ مولا علی علیہ السلام کے گوہر نایاب کلاموں کا مجموعہ ہے یہ مجموعہ قرآن مجید اور حدیث نبوی ﷺکے بعد عربی ادبیات کا ایسا بلند ترین نمونہ اور ایسا فصیح و بلیغ ، منبع اور مبنیٰ ہے ، جو عربی زبان کی تقویت، ترویج اور بلندی کا سبب بنا ہے جس کا آج تک کوئی نعم البدل نہیں فصاحت و بلاغت میں ۔البتہ مولا علی ؑ کی گفتگو کا مجموعہ ، ان کلمات سے بالاتر ہے جو نہج البلاغہ میں جمع آوری ہوئے ہیں۔ نہج البلاغہ کے بہت سے امتیازات میں سے چند کی طرف اشارہ کیا جاسکتاہے جیسے اس کی جامعیت ،زیبائی فصاحت و بلاغت اور مخاطب میں تاثیر گزا ہونا ۔علماء،خطباء اور مقررین حضرات نے اسے اپنا نمونہ( آئیڈیل )قرار دیاہے اور خوش بیان وعظ و نصیحت پسند افراد اسی سے اپنے کلاموں میں قدرت اور مدد لیتے ہیں کیونکہ انؑؑ کے کلام میں علم خدا کارنگ اورگفتار پیغمبرﷺ کی خوشبوموجودہے۔ہمارا موضوع ہے" نہج البلاغہ اور وحدت امت کی ضرورت " جیسا کہ نہج البلاغہ کے مختصراً تعارف سے استفادہ حاصل کیا اب موضوع کے دوسرے حصے کی جانب رجوع کرتے ہیں۔اسلام میں وحدت امت کی ضرورت روز اول سے ہی لازم و ملزوم ہے ۔قرآن پاک کی کئی آیتوں میں رب العالمین نے مسلمانوں کے لئے اختلاف اور تفرقے کی سختی سے ممانعت فرمائی اور خطرناک نتائج سے آگاہ کیا وحدت کا کلامی وعملی مظاہرہ رسول اکرمﷺ نے مدینہ میں اسلامی ریاست کی تشکیل کے پہلے سال ہی مواخات اسلامی کے ذریعے مسلمانوں کو اسلامی بھائی چارگی کے بندھن میں باندھ کر کیا۔
وحدت
امت مختصر تعارف
وحدت امت ایک ایسی طاقت
و قوت جس کے بنا امت کا وجود مستحکم ہی نہیں وحدت کے بغیر امت ایسے ہی ہے جیسے روح کے بنا
جسم اور روح کے بغیر جسم سوائے ایک مردے کے
کچھ نہیں۔اسی لئے دین اسلام میں وحدت امت کی تکرار تمام تعلیمات میں موجود
ہیں کہ جس امت کادین ایک، دینی شعائر ایک، شریعت و قانون ایک، منزل ایک اور خدا و
رسول ایک ہو، اسے بہرحال خود بھی ایک ہونا چاہئے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے جہاں امت
کو ایک ہوکر اللہ کی رسی کو پکڑنے کی تاکید کی ہے اور افتراق و انتشار سے روکا ہے،
وہاں خطاب واحد کے بجائے جمع کے صیغوں سے کیاہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہر فرد
جزو امت ہے وہ کسی صورت میں امت سے جدا نہیں ہوسکتا ہے۔ وحدت امت کی فرضیت،
اہمیت اور ضرورت کی اس سے بڑی دلیل اور کیاہوسکتی ہے کہ شریعت اسلام نے امت کو دن
میں پانچ بار جمع ہوکر نماز قائم کرنے کاحکم دیا، پھر ہفتہ میں ایک بار اس سے بڑے
اجتماع کے لئے جمعہ کو فرض قرار دیا اور پھر نماز عید کی شکل میں سالانہ اجتماع کا
اہتمام کیا اور تاکید کی کہ یہ اجتماع آبادی سے نکل کر کھلے میدان میں منعقد ہو
اور مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی اس میں شرکت کی ترغیب دی پھر اس سے بڑا اہتمام یہ
کیاکہ فرضیت حج کے ذریعہ مشرق و مغرب، جنوب شمال اور دنیا کے اطراف و اکناف میں
بسنے والی امت کو ایک مرکز پر ، ایک ہی جیسے لباس میں جمع ہونے، ایک ہی کلمہ ادا
کرنے اور ایک ہی جیسے افعال ادا کرنے کا حکم فرمایا۔ انفرادی عبادت کے مقابلہ میں
اجتماعی عبادت کی جو اہمیت ہے اس میں من جملہ دوسری باتوں کے امت کے اتحاد کا نکتہ
بھی شامل ہے۔
نہج البلاغہ کی تناظر میں وحدت امت کی
ضرورت
نہج البلاغہ کے تناظرمیں امیر المومنین علی علیہ السلام کے
ارشادات کے آئینے میں اسلامی وحدت،اتحاد و یگانگت کو ایسا مقام حاصل ہے کہ آپ ؑنے
اسے خدا کا ایک گراں قدرتحفہ جس کا کوئی نعم البدل نہیں قرار
دیا ۔ یہ سب سے قیمتی نعمت ہے. یہ مذہبی اور سماجی قدر، حضرت علی ؑکے کہنے کے
مطابق، خدا کی وحدانیت = توحید، پیغمبر =نبوت
کے مشن پر یقین اور اس کے ابدی معجزہ = حضورﷺ پر یقین پر مبنی ہے۔آپؑ کے چند خطبات و مکتوبات
جو وحدت کے حوالے سے ان کے تناظر میں وحدت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جب
کہ راقم مضمون کے قلم میں اتنی جسارت و
قوت نہیں کہ نہج البلاغہ جیسے شاہکار
پر قلمکاری کرے پھر بھی صاحب نہج البلاغہؑ کی حیات مبارک
سے ترتیب وار چند خاص حالات و واقعات پر مبنی خطبات پر نظر کرتے ہیں ۔
"دیکھو
اللہ نے ان پر کتنے احسانات کیے کہ ان میں اپنا رسول بھیجا کہ جس نے اپنی اطاعت کا
انہیں پابند بنایا اور انہیں ایک مرکز
وحدت پر جمع کر دیا اور کیونکہ خوش حالی نے اپنے پروبال ان پر
پھیلادیئے اور ان کے لیے بخشش وفیضان
کی
نہریں بہادیں اور شریعت نے انہیں اپنی برکت کے لیے بے بہا فائدوں میں لپیٹ
لیا۔"[1]
اس خطبے کے مطابق امت مسلمہ کو
عملی وحدت کا مظاہرہ کرکے خدادند علم کا
مشکور ہونا چاہیے کیونکہ رحمت العالمینﷺ کی صورت
میں ان پر مرکز وحدت کے نزول
کا احسان کیا ہے جسکا کوئی بدل نہیں اور اگر وہ مرکز وحدت سے جڑے
رہے تو ان پر
مذید ایسے فیضان جاری کئے جو فقط وحدت
کا ہی ثمر ہیں۔ناصرف بذات خود وحدت
ایک انمول نعمت بلکہ وحدت کا باعث بنے والوں کے لئے بھی عظیم انعام و اکرام ہے جسکا کوئی ثانی نہیں۔
"خدا
نے آنحضرت ﷺ کی وجہ سے فتنے دبا دیئے اور عداوتوں کے شعلے بجا دیے بھائیوں میں
الفت پیدا کی اور جو
کفر
میں اکٹھے تھے انہیں علیحدہ علیحدہ کر دیا۔"[2]
اس
خطبے کے ذریعے شہنشاہِ وحدت مولا علیؑ نےرسول اکرم ﷺ کی آمد کو وحدت کا جنم اور فتنوں
کی موت بیان کیا ہے اور اس کا عملی مظاہرہ
رسول اکرم ﷺ نے مواخات کے ذریعے کر کے دیکھا یاامت مسلمہ میں لازوال بھائی چارہ پیدا کیا اس وحدت کی برکت سے مہاجرین جو بےیارو مددگا
تھے وہ مالا مال ہوگئےاور مشرقین کے درمیان سے وحدت کی نعمت کو اٹھا لیا گیا۔
"پھر
جب رسول ﷺکی وفات ہوگئی تو ان کے بعد مسلمانوں نے خلافت کے بارے میں کھینچا تانی
شروع کردی۔ اس موقع پر بخدا مجھے یہ کبھی تصور بھی نہیں ہوا تھا اور نہ میرے دل میں
یہ خیال گزرا تھا کہ پیغمبر کے بعد عرب
خلافت کا رخ ان کے اہل بیت سے موڑیں گے اور نہ یہ کہ ان کے بعد اسے مجھ سے ہٹا دیں
گے۔"[3]
مولا علی ؑایسی
ہستی نہیں تھے جنہوں نے اتحاد و یکجہتی کی اہمیت اور ضرورت کی بات کی ہو
لیکن خود اس کے لئے جدوجہد نہ کی ہو۔ امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے مولاعلی ؑجیسی کسی
نے کوشش اور قربانی نہیں دی ۔مولا
علی ؑ کو ذوالعشیرہ سے لے کر غدیر تک رسول خداﷺ متعارف کرواتے رہے اس کے
بعد بھی ناقابل یقین صورت حال کے تحت سقیفہ منعقد ہوگیا اور مولاعلیؑ کے حق کو غصب کرلیا گیا اور مظالم
کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا
پھر بھی مولؑا نے وحدت کا راستہ نا بدلا
اسی حوالے سے مذید فرمایا کہ۔
"یہاں
تک میں نے دیکھا کہ مرتد ہونے والے اسلام سے مرتد ہو کر محمدﷺ کے دین کو مٹا
ڈالنے کی دعوت دے رہے ہیں۔
اب
میں ڈرا کہ اگر کوئی رخنہ یا خرابی دیکھتے ہوۓ
میں اسلام اور اہل اسلام کی مدد نہ کروں گا تو یہ میرے لیے اس سے بڑھ کر مصیبت
ہوگی جتنی یہ مصیبت کہ تمہاری یہ حکومت میرے
ہاتھ سے چلی جاۓ
جو تھوڑے دنوں کی ہے۔اس میں کی ہر چیز زائل ہو جائے گی۔
اس
طرح جیسے سراب بے حقیقت ثابت ہے یا جس طرح بدلی چٹ جاتی ہے چناچہ میں ان بدعتوں کے
ہجوم میں اٹھ کھڑا ہوا یہاں
تک کہ باطل دب کر فنا ہو گیا اور دین محفوظ ہو
کر تباہی سے بچ گیا۔"[4]
اس مکتوب کے مطالعہ
سے واضح ہے کہ مولاؑ نے وحدت کی خاطرشروع سے اپنا ہاتھ ہٹا لیا یہاں تک
کہ آپ ؑنے دیکھا کہ لوگوں کا ایک گروہ اسلام سے پھر گیا اور لوگوں کو دعوت دے رہا
تھا کہ وہ محمد ﷺکے دین کو مٹا دیں۔ شیر خدا
لفظ ڈر کا استعمال فرماتے ہیں " مجھےؑ ڈر تھا "کہ اگر میں نے ان نازک لمحات میں
اسلام اور مسلمانوں کی مدد نہ کی تو میں اسلام میں ٹوٹ پھوٹ یا تفرقے کو
دیکھوں گا یا میں اس کی تباہی کا مشاہد ہ کروں گا جو میرے لیے تم پر حکومت
چھوڑنے سے زیادہ مشکل ہو گا اور میرا اللہ اور اس کے رسولﷺ سے وحدت امت کی پاسبانی
کا عہد ہے جو میں تادم مرگ نبھاؤں گا اس بات کو مذید تفصیل میں اگلےحصے میں بیان
فرماتے ہیں کہ ۔
"تمہیں
معلوم ہونا چاہیے کہ مجھ سے زیادہ کوئی شخص بھی امت محمد ﷺ کی جماعت بندی اور
اتحاد باہمی کا خواہشمند نہیں ہے
جس
سے میری غرض صرف حسن ثواب اور آخرت کی سرفرازی ہے۔ میں نے جو عہد کیا ہے اسے پورا
کر کے رہوں گا۔"[5]
مولا فرماتے ہیں
کہ میری فضیلت تم خود جانتے ہو کہ میں خلافت کا سب سے زیادہ
حقدار اور وحدت امت کا دائی ہوں مولا
ؑ نے دور اندیشی ، وفاداری اور اخلاص کومقدم
رکھتے ہوئے وحدت امت کے لیے وہ
راستہ منتخب کیا جس کا خاتمہ
اپنے حق کی دستبرداری اور ظلم و ستم کی انتہا پر ہوتا ہےمولاعلی ؑنےبذات خود اس مسئلے پر بات کی اور
واضح طور پر اس کی وجہ بیان کی کہ میں نے اس مصلحت کے لیے خاموشی اختیار کی اور
برداشت کیا تاکہ مسلمانوں میں تفرقہ نا پیدا ہو ، ان کی صفوں کا اتحاد فوت نا
ہوجائے کیونکہ امت مسلمہ اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں سےمسلمان دنیا کو اپنی نئی طاقت و قوت دکھا رہے ہیں وہ انکی صفوں کا اتحاد و
حدت امت کے مرہون منت ہی ہے۔ انہوں نے اگلے برسوں میں بھی اسی لفظ اتحاد کی برکت
سے اپنی مذیدکامیابیاں حاصل کرنی ہیں۔ آپؑ
نے فرمایا مجھے سب سے زیادہ اسی چیز کی
اتنی پرواہ تھی کہ میں نے صبر کیا کیونکہ
اقتدار وقتی مسئلہ ہے او ر وحدت امت و تعلیمات اسلامی تا قیامت تک رہنی چاہیے ۔
"
تم اسی راہ پر تھے رہو اور اس بڑے گروہ کے ساتھ لگ جاؤ چونکہ اللہ کا ہاتھ اتفاق و
اتحاد رکھنے والوں پر ہے اور تفرقہ و انتشار سے
باز
آ جاؤ اس لیے کہ جماعت سے الگ ہو جانے والا شیطان کے حصہ میں چلا جاتا ہے۔"[6]
مسلمانوں کے درمیان تفرقہ کے ظہور میں اہم نکتہ جاہلوں کی
جہالت پر زور ہے۔ اس بنا پر امیر المومنین ؑ نے اپنے "خطبہ القصع" میں
اس دینی لعنت کی تخلیق میں شیطان کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے
کہ شیطان خدا کا دشمن ہے جنونیوں
اور متکبروں کا سردار جس نے تفرقے کی بنیاد رکھی اور اسے خداوند عالم نے عظمت و بزرگی کا لباس پہنایا جسے وہ
سنبھال نا سکااور تم سے انتقام لیتا ہے اپنا نمائندہ بنا لیتا ہے وہ وحدت
کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ایک اور خطبہ میں فرمایا کہ
"اور
وحدت کے ساتھ رہو کہ خدا کا ہاتھ اسی جماعت کے ساتھ ہے اور خبردار تفرقہ کی کوشش
نہ کرنا کہ جو ایمانی جماعت سے کٹ
جا
تا ہے وہ اسی طرح شیطان کا شکار ہو جاتا ہے جس طرح ریوڑ سے الگ ہوجانے والی
بھیڑ بھیڑیئے کی نذرہو جاتی ہے ۔آگاہ ہو جاؤ
جو
بھی اختلاف کا نعر ہ لگائے اسے قتل کر دوچاہے میرے ہی عمامہ کے نیچے کیوں نہ ہو
۔"[7]
تفرقہ پیدا کرنے میں شیطان کس طرح کردار ادا کرتا ہےدرحقیقت
شیطان آپ کے لیے اپنی راہیں آسان بناتا ہے اور آپ کے مذہب کے کلیدی رشتے یکے بعد
دیگرے کھولتا ہے اور آپس میں اتحاد اور ہمدردی کے بجائے آپ کی تقسیم میں اضافہ
کرتا ہے اور اس تقسیم کا فائدہ اٹھا کر آپ کو فتنہ و فساد میں ڈال دیتا ہےاور خود
تماش بین بن جاتا ہے مولا نے اس خطبے میں
ریوڑ کی مثال اسی لئے دی کہ جو ریوڑ سے کٹا وہ مرا۔سب سے اہم ترین جملہ اس خطبے کا
، مولا ؑکی ناپسندیدگی کے اظہار کی آخری حد ہے کہ وہ خود اپنے اور اپنے
قریبیوں کے قتل تک کا حکم دیتے ہیں تفرقہ
پھیلانے کی صورت میں۔
"غور
کرو کہ جب ان کی جمیعتیں یکجا، خیالات یکسو اور
دل یکساں تھے اور ان کے ہاتھ ایک دوسرے کو سہارا دیتے اور
تلواریں ایک دوسرے کی معین و مددگار تھیں، اور
ان کی بصیرتیں تیز اور ارادے متحد تھے، تو
اس وقت ان کا عالم کیا تھا
کیا وہ اطراف زمین فرمانروا اور دنیا والوں کی
گردنوں پر حکمران نہ تھے؟ اور تصویر کا یہ رخ بھی دیکھو کہ جب ان میں
پھوٹ
پڑ گئی، یکجہتی درہم برہم ہو گئی،ان کی باتوں اور دلوں میں اختلافات کے شاخسانے
پھوٹ نکلے اور وہ مختلف ٹولیوں
میں
بٹ گئے اور الگ جتھے بن کر ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے لگے تو ان کی نوبت یہ ہو گئی
کہ اللہ نے ان سے
عزت
و بزرگی کا پیراہن اتار لیا اور نعمتوں کی آسائشیں ان سے چھین لیں اور تمہارے
درمیان ان کے
واقعات کی حکایتیں عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے
عبرت بن گئی۔"(22)
مولا ؑ اس خطبے میں
ماضی کی زندگیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے
ہیں سوچو کہ مسلم کس مقام پر
پہنچے، جب ان میں سماجی اتحاد تھا، ان کی خواہشیں ایک تھیں، ان کے دل ایک جیسے
تھے، ان کے ہاتھ ایک دوسرے کے مددگار تھے، ان کی تلواریں مددگار تھیں، ان کی
نگاہیں ایک دوسرے پر جمی تھیں۔ ایک ہی طرف اور ان کی مرضی متحد تھی۔ کیا اس وقت وہ
ساری زمین کے حکمران و نگہبان نہیں تھے
اور کیا وہ ساری دنیا کے پیشوا اور رہنما نہیں بنے تھے؟
اسلامی اتحاد کے سائے میں امت محمدیہ کے معاشرتی معاملات قائم ہوئے اور مستحکم وقار
کی روشنی میں وہ پرسکون ہوئے اور ایک مستحکم حکومت تک پہنچ گئے۔ پھر وہ حاکم بنے
اور وہ روئے زمین پر سلطان بنے اور وہ ان لوگوں کے حاکم بنے جو ماضی میں حکمران
تھے اور انہوں نے ان لوگوں پر احکام الٰہی کا نفاذ کیا جو احکام کے نافذ کرنے والے
تھے اور ماضی میں کسی کے پاس ان کی طاقت کو کچلنے کی طاقت نہیں اور کوئی ان سے لڑنے کا سوچتا بھی نہیں تھا اور
پھر تمہاری وحدت کے اختتام نے تمہیں کہیں کا نا
چھوڑا اور اللہ نے سب تم سے لوٹا لیا۔ جبکہ بے شک تم ایک دوسرے کے دینی بھائی ہو۔ بُری
فطرت اور بدصورت ضمیر کے سوا کسی چیز نے آپ کو الگ نہیں کیا۔ تم ایک دوسرے کی مدد
نہیں کرتے اور نہ ہی ایک دوسرے پر احسان کرتے ہو۔ تم ایک دوسرے کو کچھ نہیں دیتے اور ایک دوسرے سے
دوستی نہیں کرتے۔ان عوامل کی وضاحت کرنا لازمی اور ضروری ہے جو "تفرقہ" کا سبب
بنتے ہیں۔ اس کے لیے تمام مسلمانوں کو ان سرحدوں کے قریب جانے سے بچنے کی پوری
کوشش کرنی چاہیے جو سماجی مسائل کے میدان میں سرخ لکیر سمجھی جاتی ہیں اور وحدت کے
خاتمہ کا سبب بنتی ہیں۔
خلاصہ
نہج البلاغہ کی تعلیمات سے یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ امت
اسلامیہ میں تقسیم کی آگ اور اس کے نتائج کے درمیان براہ راست تعلق ہے۔ اس کا مطلب
ہے کہ تقسیم کی آگ جتنی بھڑکتی رہے گی، نتیجہ اتنا ہی زیادہ افسوسناک اور نقصان دہ
نکلے گا کیونکہ "اختلاف رائے کو نابود کردیتاہے۔"(نہج
البلاغہ ،حکمت٢١٥)قرآن و حدیث میں
مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ آپس میں تفرقہ ایجاد نہ کریں، کیوں کہ مسلمانوں کے
درمیان تفرقہ اللہ کی عنایات میں کمی کا باعث ہے اور مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کا
سب سے بڑا سبب بھی ہے وحدت نعمت خداوندی ہے ۔دحدت امت ناصرف قرآن و سنت میں اہم مرکزیت رکھتی ہے بلکہ مولا علیؑ جو کے وحدت امت کے سب
سے بڑےبا عمل تاجدار وحدت ہیں انہوں نے وحدت کی ضرورت صرف خطبوں، خطوط میں نہیں دی
بلکے عملی طور پر اپنے حقوق سے دستبرداری کے ساتھ ساتھ سخت ترین مظالم سہے اور خود سے لے کر پوری آل و اولاد سے
قربانی وصبر کے بے نظیر مظاہرے کراوائے کہ
جب سے دنیا خلق ہوئی تب سے کسی نے وحدت امت کے لئےجان و مال،آل اور اقتدار کی ایسی قربانی نا دی ہو گی وہ بھی فقط رضائے الہی
ورضائےر سولﷺ کی خاطر۔آپ کی وحدت کا عمل
فقط امت مسلمہ تک محدود نا تھا بلکہ اسلامی معاشرہ میں زندگی بسر کرنے والے
تمام بنی آدم ؑکے مابین وحدت کے لئےتھااپنے ہم مذہب لوگوں سے دینی بھائیوں کے
عنوان سے دوستی اور معاشرہ کے دوسرے افراد
جو تخلیق میں ایک ہی جنس سے ہیں سے ایک انسان کی حیثیت سے دوستی مولا علی ؑکی تعلیمات میں سے ہے۔آج جو امتیں ترقی کے ذینے چڑھتی جارہی ہیں اور عروج و بلندی
کے عنبر میں سفر کررہی ہیں وہ وحدت
کے راہ گزر پرہی گامزن ہیں اختلاف وانتشار کسی بھی بنیاد پر ہو
خواہ رنگ ونسل ہو یا قومیت کے سبب ،مکتب ومشرب کے نام پرہو یا مذہب وفرقہ کی
بنیادپر ، ہر طرح کے اختلاف وانتشار دشمن کی بھرپور چال اورصدیوں پرانا خواب
ہونے کے علاوہ ان کی حسرت بھی ہے ۔اس لئے دشمن کے ہروار سے ہر ساعت باخبر
وجوابی حملے کے لئے تیار ہونا لازمی ہے تاکہ ان کے پھلائے گئے فتنوں کا بروقت
سدباب ہوسکے جس کے لئے لازم ہے ہم
قرآن و سنت اور نہج البلاغہ پر عمل پیرا
رہیں۔خداوند علم امت مسلمہ کو تعلیمات اسلامی کے مطابق وحدت کا عملی نمونہ بنادے۔آمین
راقمہ:سیدہ شمائلہ رباب رضوی
[1] سید
رضی ،مترجم مفتی جعفر حسین،نہج البلاغہ،(لاہور: امامیہ کتب
خانہ)خطبہ190،ص 530۔
[2] سید رضی ،مترجم مفتی
جعفر حسین،نہج البلاغہ،(لاہور: امامیہ کتب خانہ)خطبہ94، ص 285۔
[3] سید رضی ،مترجم مفتی
جعفر حسین،نہج البلاغہ،(لاہور: امامیہ کتب خانہ) مکتوب 62، ص 780۔
[4] ایضاً
[5]سید رضی ،مترجم مفتی
جعفر حسین،نہج البلاغہ،(لاہور: امامیہ کتب خانہ)مکتوب 78، ص 802
[6] سید رضی ،مترجم مفتی
جعفر حسین،نہج البلاغہ،(لاہور: امامیہ کتب خانہ)خطبہ 125، ص 352
[7] سید رضی ،مترجم مفتی
جعفر حسین،نہج البلاغہ،(لاہور: امامیہ کتب خانہ)خطبہ190 ، ص
0 Comments
Make Sure to Drop your valuable Feedback!