رسول اللہﷺ کے اسماء اور القابات قرآن کے آئینے میں

 

رسول اللہﷺ کے اسماء اور القابات قرآن کے آئینے میں

                                                                                                                سیدہ شمائلہ رباب رضوی

اسلامک اسکالر شاہ عبداللطیف یونیورسٹی







Abstract:

The Almighty God embellished the universe with a bouquet of prophets and messengers, so he addressed these rare and precious beings by saying Kaleemullah, Najibullah, Zabihullah, Roohullah and sometimes Khalilullah. There is a unique way of closeness and love between Almighty God and his Prophets, Almighty sent approximately one hundred and twenty four thousand prophets in the world to lead the people towards the righteous path. Each one of the Prophets is the most beloved servant of Allah, but the one who is the closest and most dearest among them is the Chief of all Prophets, Khatam al-Anabiyyah, Sarwar Kunin, Rahmat al-Alameen, Hazrat Muhammad Mustafa (), who was introduced by The God Almighty as the light of God and God gave their relation the name of Habib and Beloved. The divine Lord of the worlds appointed three hundred and thirteen messengers out of one hundred and twenty four thousand prophets, and in this list he also placed his beloved, Hazrat Mohammad, at the top, and when it came to the matter of the first and foremost prophets, he gave him the height and perfection of greatness there too. Whenever God spoke to other prophets, he mostly used the form of "A" "O" and addressed them like; A/O Musa, A/O Jesus. And when he addressed his beloved, sometimes he expressed his love by saying Yaseen and Taaha, sometimes Muzamil and Mudassar, and sometimes Hamid and Mahmud, such expressions of God shows his love with his beloved. This expression of love is preserved by God Almighty even in his most reliable book Quran Shareef.

مقدمہ

خداوند عالم نے  کائنات کے گلشن کو انبیاء و رسل کے گلدستہ سے آراستہ فرمایا  تو ان نایاب و انمول  ہستیوں کو کبھی کلیم اللہ ،نجیب اللہ، ذبیح اللہ، روح اللہ  تو  کبھی  خلیل اللہ  کہہ کر مخاطب فرمایا  یہ رب کریم کے اپنے انبیاء و رسل سے قرب و حب کا ایک منفرد انداز ہے خداوند عالم نے  کم   و بیش  ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء  انسانوں کی رہنمائی کے لئے  دنیا میں بھیجے ۔ وہ تمام کے تمام انبیاء اس کے خاص الخاص  محبوب ترین  بندوں  میں سرفہرست  شمار ہوتے ہیں مگر ان سب میں جو سب سے زیادہ قریب اور حبیب ہے وہ ہیں سردار انبیاء ،خاتم النبین ، سرور کونین ،رحمت العالمین  حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ جنکا تعارف خداوند عالم اپنے  نور  کے  طور پر کروا رہا ہے  تو کبھی اپنے رشتے کو  حبیب و محبوب کا نام دے رہا ہے۔ رب العالمین  نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء میں تین سو  تیرہ رسول مقرر کئے تو اس فہرست میں بھی اپنے حبیبﷺ کو سر فہرست رکھا اور جب اولوالعزم انبیاء کا معاملہ آیا تو وہاں بھی عظمتوں کی بلندیوں  کا اوج و کمال  عطاء فرمایا۔جب بھی دیگر انبیاء سے کلام فرمایا تو مخاطب ہوتے وقت  زیادہ تر"اے" کا صیغہ استعمال  کیا  اے موسیٰ، اے عیسیٰ۔۔۔۔اور جب اپنے حبیب سے مخاطب ہوا  تو کبھی یٰس   و طحہ تو کبھی مزمل و مدثراور کہیں حامد و محمود کہہ کر اظہار عشق  ومحبت ظاہر کیا۔اس اظہار محبت کوخداوند  عالم نے اپنی معتبر ترین کتاب میں بھی بازبان حبیب خداﷺ تاقیامت تک محفوظ فرما دیا۔ اس بات  کا تحقیقی  تجزیہ پیش خدمت  کرنے کے لئے جس موضوع کا انتخاب کیا ہےوہ کچھ یوں ہے" رسول اللہﷺ کے اسماء اور القابات قرآن کے آئینے میں"۔

کلیدی الفاظ: آئینہ،حبیب خدا، خاتم الانبیاء،سرور کونین

تعارف

"بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر" ایک نعتیہ قطعے کا آخری مصرع ہے جو کے شاہکار ہے شاہ عبد الحق محدث کے قلم کا یہ ایسا مصرعہ ہے جو حقیقت کی معراج کو پہنچا ہوا ہےکیونکہ خدادند عالم نے سوا لاکھ انبیاء میں سردار انبیاء کا تاج  اپنے حبیب کے سر سجا کر ہی کائنات کو خلق کیا تھا۔ اور پھر اپنے حبیب سے اپنی محبت کو اس طرح بیان فرماتا ہے کہ

’’اللہ اور اس کے ملائکہ نبیؐ پر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔‘‘(1)

عظمت  و محبت  کی انتہا تو یہاں آکر مذید  اوج و کمال  پا گئی کے جس اعلیٰ و بلند ہستی پر خداا ور اس کے فرشتے خود درود و سلام بھیجیں اس سے اس کی محبت کیسے ناپی یا تولی جاسکتی ہے؟ اور پھر خود ہی بیان فرماتا ہے کہ"  ورفعنا لک ذکرک، یعنی’’ آپ کی خاطر آپ کے ذکر کو  بلند کر دیا ہے‘‘۔آپؐ کا ذکر عالم   بالا میں ہونے لگا ہے، پوری زمین پر آپؐ کی دعوت کا غلغلہ بلند ہو گیا ہے۔ پوری کائنات میں آپؐ کا نام بلند ہو گیا ہے کلمہ ، اذان، نمازاور درود میں آپؐ کا نام اللہ کے نام کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔یہ منفرد مقام تمام مخلوقات کے مقابلے میں صرف آپؐ کے لیے مخصوص ہے۔ ہم نے آپؐ کا ذکر لوح  محفوظ میں کر دیا کہ زمانے گزر جائیں گے، نسلیں جائیں گی اور آئیں گی اور کروڑوں ہونٹ آپؐ کے اسمِ گرامی کو ادا کرتے رہیں گے۔ آپؐ پر درود اور سلام بھیجتے رہیں گے۔گہری محبت اور عظمت و احترام کا اظہار کرتے رہیں گے۔اس دین کے ساتھ آپؐ کا نام ہمیشہ جگمگاتا رہے گا اس کے لئے مذید ایک ہتمام کیا  کہ اپنے پیارے  حبیب کو مختلف  اسماء و القابات  سے    پکارا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو کسی اور کو نصیب ہوا   نا  ہو گا کیونکہ یہ حبیب و محبوب کا انوکھا رشتہ ہے جیسا کائنات میں کسی کا نہیں اور پھر اپنے حبیب کی مدح و سرا ء میں قرآن نازل فرمایا جہاں ایک سو چودہ سورتوں  میں فقط چار  مرتبہ نام لے کر پکارتا ہے  تو پورے قرآن میں مداح  سرائی و لاڈ کر تا نظر آتا ہے کبھی مبشر و حاشر   کہہ کر پکارتا ہے تو کبھی رحمت العالمین پورا قرآن  رسول اللہ کی ثناء کا قصیدہ ہے۔

رسول اللہﷺ

عام الفیل11ھ ہے اور آسمان اسقدر منور ہے کہ آج سے پہلے کبھی اتنا  روشن  نا تھا وہ آتش کدے جو سالوں سے دھک رہے تھے آج اچانک کیسے بجھ گئے  ہر جانب گل و گلزار کا منظر ہے آخر معمہ کیا ہے ؟ آج عرش سے خداوند عالم نے اپنے محبوب محمد بن عبد اللہ بن عبد المطّلب بن ہاشم کو سرزمین عرب  کا مکین کیا ہے بی بی آمنہ کے گلشن میں مہکار ہی مہکار ہے ۔رسول اللہ  کی ولادت کے ساتویں دن  حضرت عبد المطلب نے خدا کے حضور قربانی پیش کی اور لوگوں کے ایک گروہ کو دعوت دی اور خدا کے الہام سے اپنے پوتے  کا نام "محمد" رکھا ،روایات میں آتا ہے کہ آپ ﷺ کی پیدائش سے پہلے کبھی کسی کا نام "محمد" نہیں رکھا گیا تھا ۔آج اس سلسلے کا اختتامیہ ہے جس کا آغاز حضرت آدم  ؑسے کیا تھا    بصورت  سوا لاکھ  انبیاءکے ایک سلسلے   کے طور پر اپنے حبیب کے استقبال اور راہوں کو ہموار کرنے کے لئے۔اگر آج دین اسلام مسلسل فروغ پانے والا دین سمجھا جاتا ہے تو   اسکا سبب یہ ہےکہ رسول اللہ ﷺعرب ہوں یا عجم تمام  عالمین      کی خلقت  خدا کے لئے رسول، رہبر و رہنما ءبنائے گئے اور  تمام عالمین  کی مخلوقات آپﷺ کی امتی  ہیں جو کہ سردار انبیاء سرور کونین  کی  جلالت،منصب اور رفعت و منزلت کا بیان ہے۔ظاہری رسالت  کا تاج آپ ﷺکے سر اقدس  پر چالیس سال  کی عمر مبارک میں سجایا گیا آپ   ناصرٖف ختم الرسل، خاتم الانبیاء ہیں بلکہ سردار انبیاء کا سہرا بھی آپ کے سر ہے پیغمبراکرم ﷺ کا سب سے مشہور اسم  "محمد" ہے اور آپ کا مشہور لقب "مصطفی" ہے اور آپ کی مشہور کنیت ابوالقاسم" ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے "ابوالقاسم" اس لیے کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن میری وجہ سے جنت اور جہنم کو تقسیم کر دے گا، لہٰذا جس نے کفر کیا اور مجھ پر ایمان نہیں لایا وہ ماضی اور مستقبل میں جہنم میں بھیج دیا جائے گا۔ جو مجھ پر ایمان لائے اور اقرار کیا کہ میں نبی ہوں تو وہ جنت میں داخل ہوں گے ابو القاسم  کا وجہ تسمیہ یہ بھی ہے  کہ آپ ﷺ کے فرزند کا نام قاسم تھا۔ رب العالمین اپنے کلام بلاغت میں اپنے محبوب کو  بارہا رسول اللہ کہہ کر مخاطب فرما رہا ہے یوں تو تین سو تیرہ کے عدد کو چھوا ہے  رسل کی تعداد نے مگر برگزیداہ ترین رتبہ رسول اللہ ﷺ کے لئے ہی مخصوص فرمادیا رب کریم نے۔

اسماء

اسم کے معنی نام ہے اور اسماء اسم  کی جمع ہے،  علماء ،مورخین ، موحدثین  اور مفسرین کے مطابق  حبیب خدا خاتم الانبیاءکے  انگنت  وبے شمار اسمائے مبارکہ ہیں، ان تمام اسمائے مبارک میں سے سب سے افضل ترین  اسم محمد ہے، جس کو  رب العالمین نے تخلیقِ کائنات سے دو ہزار سال پہلے اپنے محبوب کے لئے منتخب فرما دیا تھا قبل از قرآن  آسمانی کتب  میں آپ کا  اسم  مبارک احمد ہے۔اَحمد  کے  معنیٰ  ہیں  "سب سے زیادہ حمد کرنے والا"یہ اسمِ مبارک آپﷺ کی ولادت   باسعادت سے پہلے ہی رکھا گیا حضرت عیسیٰ  علیہ السلام نے فرمایا:میں بشارت دیتا ہوں کہ میرے بعد ایک شان والا رسول آئے گا، اس کا نام احمد ہوگا۔رسول اللہ ﷺکے تین  اسماء  حمد سے مشتق ہیں اول محمد دوم احمد سوم محمود۔محمد کے معنی ہر طرح،ہر وقت،ہر جگہ،ہر ایک کا حمد کیا ہوا، یا ان کی ہر ادا کی، ہر وصف کی ذات کی حمد کی ہوئی مخلوق بھی ان کی حمد کرے۔ خالق بھی ان کی حمد فرمائے،جتنی نعمتیں جتنی سوانح عمریاں ہر زبان میں ہر وقت رسول اللہ ﷺ کی ہورہی ہیں اتنی کسی کی نہیں ہوئیں۔قرآن مجید میں آپ ﷺکے بہت سے  اسمائے مبارک  رقم ہیں  جن میں المنذر ہے، الکریم ،نعمت اللہ ،النذیر ،المبین ،الشھید ،الحق الصراط المستقیم ،مبارک الحبیب ،البشیر ہیں۔ ایک مستند سند میں جابر انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

"اللہ تعالیٰ نے میری بشارت ہر نبی کی زبان میں اپنی امت کو دی ہے اور اس نے میرا نام بہت زیادہ ذکر کیا ہے۔ تورات اور

بائبل میں ۔ تورات میں اس نے میرا نام احد رکھا کیونکہ میری امت کے جسم خدا کی وحدانیت وتوحید پر ایمان  کی وجہ سے 

جہنم کی آگ پر حرام ہو گئے ہیں ، اور اس نے بائبل میں میرا نام احمد رکھا ہے کیونکہ میں محمود ہوں۔ آسمان اور میری

امت میری تعریف کرنے والے ہیں، اور زبور میں اس نے مجھے حوت ( مچھلی) کہا کیونکہ میری وجہ سے بت پرستی زمین

سے مٹ جائے گی اور اس نے مجھے قرآن میں محمد کہا کیونکہ قیامت کے دن تمام امتیں میری

تعریف کریں گی کیونکہ قیامت کے دن کوئی شفاعت نہیں کرے گا  میرے علاوہ ۔"(2)

بعض علماء نے سیرت النبی ﷺ یا شمائل وتاريخ پر لکھی کتب میں آپ کے اسمائے مبارکہ کے متعلق ابواب قائم کیے ہیں۔

جیسا کہ" قاضی عیاض رحمہ اللہ المتوفی 544ھ نے الشفاء بتعریف حقوق المصطفی میں، حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ

المتوفی 571ھ نے تاریخ دمشق میں اور حافظ ابن القیم رحمہ اللہ المتوفی 751ھ نے زاد المعاد میں، وغیرہ ۔جبکہ بعض علماء نے تو اس

موضوع پر باقاعدہ کتب تصنیف کی ہیں، مثلاً : امام ابو الحسین احمد بن فارس رحمہ اللہ المتوفی 395ھ کی "اسماء الرسول ومعانیھا"

، ابو الخطاب ابن دحیہ رحمہ اللہ المتوفی 633ھ کی "المستوفی فی أسماء الصطفی" اور اس کی تلخیص ابن العشاب الدرعی المتوفی 853ھ

کی "تلخیص مختصر المستوفی فی أسماء المصطفی"، علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ المتوفی 911ھ کی

"الروض الأنيقة فى شرح أسماء خير الخليقة" اور پھر انہوں نے اس کی تلخیص کی "النهجة السوية فى الأسماء النبوية"

کے نام سے، علامہ سخاوی المتوفی 902ھ کی "الاصطفاء فی أسماء المصطفی" اس کی شرح علامہ عبد الباسط بلیقینی

شافعی نے الوفاء بشرح الاصطفاء کے نام سے کی، علامہ معروف برزنجی 1254ھ کی

"تنوير الضمير في الصلوات المشتمله على اسماء البشير النذير" اسی طرح مشہور صوفی یوسف نبہانی المتوفی

1350ھ کی "الاسمی فیما لسيدنا محمد من الأسماء" ۔ وغیرہ    علامہ عبد اللہ بن محمد حبشی نے کم وبیش

پینتالیس کتب کا ذکر کیا ہے جو رسول اللہ ﷺ کے اسماء کے متعلق لکھی گئی ہیں ۔

(معجم الموضوعات المطروقة،ص : 1978 - 1980)"(3)

"اَسماءُ النَّبی لُغَۃً و اِصْطِلاحاً" نامی کتاب  جس کے  مؤلف محمدعارف نعیمی ہیں، اس کتاب میں ہزار اسماء رسول  ذکر ہوئے ہیں اور

" و اَسماءُ النَّبی فِی الْقرآنِ وَ السُّنَّہ"،  نامی کتاب کےمؤلف  عاطف قاسم امین ملیجی ہیں، اس کتاب میں  انتیس

مشہور  اسماء رسول کرم ﷺذکر ہوئے ہیں۔"(4)

مذید اسمائے گرامی پر تفصیلی گفتگو  اگلے باب میں ملاحظہ فرمائیں۔

القابات

لقب کے معنیٰ ایسا خاص نام ہوتا ہے جو کسی خاص خوبی یا وصف کی وجہ سے مشہور و زبان ذد عام  ہوجائے۔ جہاں رب العالمین نے اپنے کلام بلاغت میں اپنے محبوب کو بہت پیارے اسماء سے پکارا ہے وہیں پر اپنے حبیب  کی عظمت اور مقام کی وجہ سے آپ ﷺکے لیے بہت سے القابات بیان کیے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی خوبیاں و صفات کا بعد از پروردگار عالم کوئی مقابل نہیں  جس ہستی کی ایسی بلند پایہ خوبیاں و صفات  ہوں تو القابات  کا کثیر ہونا بھی  برحق ہے اور القابات بھی ایسے جسکا کوئی تقابل نہیں ، جیسے: مصطفیٰ، حبیب اللہ، صفی اللہ، نعمت اللہ، خیر اللہ، خلق اللہ، سید الانبیاء۔ مرسلین، خاتم النبیین، رحمت العالمین، خیر الباریۃ، نبی الرحمۃ، صاحب المحملمہ، محلل الطیبات، محرم الخطابات، مفتاح الجنۃ، خیر البشر، ابو الریحانتین، ابو السبطین اور ابو ابراہیم ۔حبیب خدا کا سب سے زیادہ زبان ذد عام لقب مصطفیٰ ہے جو تقریبا ً آپﷺ کے اسم گرامی کا جز بن چکا ہے ۔

"اسماءُ الرَّسولِ المُصطفی و القابُہُ و کُناہُ و صفاتُہ" نامی  کتاب جس کے  مؤلف عباس تبریزیان ہیں یہ کتاب  تین جلدوں پر مشتمل ہے جس

 یں ہزار اسماء  و القابات اور صفات کا ذکر ہوا ہے۔ اور  یہ کتاب الف با کی ترتیب سے مرتب ہوئی ہے۔ یہ کتاب 1423ھ

 کو بیروت میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی۔"(5)

القابات  ختم الرسل ﷺ کا مفصل جائزہ آئندہ باب میں  رقم  ہے۔

قرآن  پاک

رسول اللہ ﷺ ختم الرسل ، خاتم الانبیاء ہیں خدادند عالم نے  آپ ﷺ پر ہر طرح سے اپنے لطف وکرم کا اظہار فرمایا ہے اور آپ کو ابدی معجزہ قرآن  پاک عطا ء فرمایاہے جس کے بارے میں خود سورہ بقرہ کی دوسری آیت میں بیان فرماتا ہے کہ " یہ وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں " ۔ایک سو چودہ سورتوں پر مبنی یہ مقدس کلام عربی زبان میں نازل کیا گیا  اس  وجہ سے غیر عرب مسلمان اسے آسانی سے سمجھنے سے قاصر تھے اس لئے دنیا کی تقریبا تمام زندہ زبانوں میں قرآن کا ترجمہ کیا گیا ہے تاکہ ہر مسلمان اسے با آسانی سمجھ سکے۔رسول اللہﷺ نے قرآن مجید کو حفظ کرنے اسکی کی تلاوت کرنے اور اس کی کتابت  کی بہت  زیادہ تاکید فرمائی   آپ ﷺنے تقریباً تئیس برس کی مدت میں قرآن کا پیغام دنیا تک پہنچایا۔قرآن کریم کی پہلی وحی میں رسول اللہ ؐ کو ’’اقرأ‘‘ (پڑھیے) کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے اور آخری سورۃ (النصر)میں ’’فسبح بحمد ربک واستغفرہ‘‘ (اے نبیؐ، اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرو، اور اس سے مغفرت کی دعا مانگو) کا حکم دیا گیا ہے۔خدا وند عالم نے آسمانوں اور زمین کا ہر طرح کا علم اس کتاب میں محفوظ فرما یا ہے انسانوں کے لئے سبق و عبرت کے لئے انبیاء و رسل کے واقعات بیان  فرمائے ہیں  جس میں اپنے پیارے حبیب ﷺسے  مختلف اسماء و القابات سے مخاطب ہو کر تمام گذشتہ و آنے والے حالات کا بیان فرمایا ہے۔رب کائنات نے  اپنے کلام بلاغت میں اپنے حبیب ﷺکے دہن مبارک سے بیان فرمایا کہ میں اس کتاب کا مصنف نہیں ہوں، بلکہ یہ ایک وحی ہے جو میرے پاس آئی ہے اور مجھے اس میں ردّو بدل کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے ،تاکہ جب رب کائنات  اپنےحبیب کی ثناء خوانی بذریعہ اسماء و القابات کرے تو کوئی یہ نا کہہ سکے کے محمد ﷺ اپنی زبان سے اپنی ثناء کرتے ہیں۔ خداوند عالم  نےفرمایا:

’’اور کہو: اگر اللہ کی مشیت یہی ہوتی تو میں  یہ قرآن تمہیں کبھی نہ سناتا اور اللہ تمہیں اس کی خبر تک نہ دیتا۔ آخر اس سے پہلے میں

تمھارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے‘‘۔(6)

رسول اللہ ﷺ پر اس تعریف و ثناء میں پوری کائنات شریک ہو جاتی ہے، اور اس پوری کائنات کی روح میں یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ آپﷺ خلقِ عظیم کے مالک تھے۔کسی قلم میں یہ قوت نہیں کہ وہ آپ ﷺکے مناقب  ، حمد وثناء بیان کر سکے، کسی شخص میں یہ قوت نہیں کہ وہ آپ ﷺکے اخلاق کا تصور کر سکے۔ اور اس عظیم سرٹیفکیٹ کی تشریح کر سکے۔ یہ عظیم کلمات  رب العالمین کی جانب سے  ہی ممکن ہیں۔ یہ خلقِ عظیم وہ ہے جس کا تصور کسی انسان کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنی محدود عقل و ادراک سے اس کا تصور کر سکے۔رسول اللہؐ کے اخلاق کی بہترین تعریف حضرت عائشہؓ نے اپنے اس قول میں فرمائی ہیں کہ :

’’کان خلقہ القرآن‘‘۔ قرآن آپ کا اخلاق تھا۔ (امام احمد، مسلم) یعنی آپؐ قرآن کا مجسم نمونہ تھے۔ جس چیز کا قرآن میں حکم دیا گیا

آپؐ نے خود سب سے بڑھ کر اس پر عمل کیا،جس چیز سے اس میں روکا گیا آپؐ نے خود اس سے سب سے زیادہ اجتناب کیا،

جن اخلاقی صفات کو اس میں فضیلت قرار دیا گیا، سب سے بڑھ کر آپؐ کی ذات ان سے متصف تھی، اور جن صفات کو اس میں

ناپسندیدہ ٹھہرایا گیا سب سے زیادہ آپؐ ان سے پاک تھے۔"(7)

قرآن کے آئینے میں اسماء و القابات رسولﷺ

قرآن  پاک میں  رب العالمین نےاپنے حبیب  نبی اور ا ن کے نام کو خاص عزت دی ہے اور ان کے بارے میں گفتگو کی شائستگی کا احترام کیا ہے جبکہ دیگر انبیاء و رسل کو بھی مختلف اسماء و القاب عطاء فرمائے ہیں جیسے خلیل اللہ، کلیم اللہ، ذبیح اللہ،روح اللہ وغیرہ مگر ان کی تکرار کثرت سے نہیں فرمائی اور قبل از ختم الانبیاء اپنے  بھیجے گئے انبیاء و رسل  کو  زیادہ تر ان کے ذاتی اسماء سے  مخاطب کیا ہے جیسے "یا آدم"، "یا"۔ نوح اور "یاموسی"، لیکن وہ  اپنے حبیب کو "یایۃ النبی" اور "یایۃ الرسول" جیسے القابات سے مخاطب کرتا ہے اور مسلمانوں کو بھی تاکید کرتا ہے کہ وہ رسالت مآب کو عزت و احترام کے ساتھ مخاطب کریں  ۔رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ  طیبہ کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت اَظْھَرْ مِنَ الشَّمْسْ ہوجاتی ہے کہ کائنات میں اسوہ حسنہ سب سے اعلیٰ اخلاق  و اوصاف  پر فائز ہستی رسول اللہ ﷺ کی ہے، جن کے اخلاق  و اوصاف کے عظیم ہونے کی گواہی خود رب العالمین نے اپنے کلام بلاغت میں مختلف القابات و  صفاتی اسماء کے ذریعے  بیان کی ہے۔ آپ ﷺکے جو نام بالاتفاق قرآن مجید میں ہیں وہ شاہد، مبشر، نذیر، مبین، داعی إلی اللہ، سراج منیر، اسی طرح مذکِّر ، رحمت، نعمت، ہادی ، شہید، امین، مزمل، مدثر ہیں ۔ جب اسماء و القابات رسول اللہ ﷺ کے متعلق تحقیق کی تو معلوم یہ ہوا کہ  دو اہم نکات ہیں  پہلا یہ کہ کسی بھی صحیح حدیث میں آپ کے اسماءو القابات  کی کوئی تعداد مقررنہیں  ہے دوم یہ کہ کوئی ترتیب یا خاص  فہرست   بھی مرتب نہیں کی گئی ہے۔یہ ہی سبب ہے کہ آپ ﷺ کے  اسماء و القابات کی تعداد کے متعلق علماء کا اختلاف ہے اس کے دو بنیادی سبب ہیں۔
اولاً یہ کہ بہت سارے اسماء و القابات کی آپ کی طرف نسبت میں اختلاف ہے یا کئی علماء نے صفات سے ہی اسماء کو مشتق کر لیا ہے۔ پھر چونکہ ان کی کیفیت محض اجتہادی و استقرائی ہے، یعنی علماء نے اپنی کوشش کے تحت اسم  چن کر ذکر کیے ہیں تو یہ اس اختلاف کا باعث ہے، بعض صوفیاء کہا کرتے تھے کہ لله عز وجل ألف اسم، وللنبى ﷺ ألف اسم. ”اللہ تعالی کے ہزار نام ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے بھی ہزار نام ہیں۔کچھ علماء اس  کا رد کرتے ہوئے  کہتے ہیں۔ اللہ تعالی کے اسماء کو ہزار میں محصور کردینا تو تحقیر ہے، کیونکہ (اللہ تعالی فرماتے ہیں)، کہہ دیجیے! اگر سمندر میرے رب کے کلمات کے لیے سیاہی بن جائے تو یقینا سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کے کلمات ختم ہوں، اگرچہ ہم اس کے برابر اور سیاہی لے آئیں۔

آپﷺ کے اسماء و القابات بہت ہیں جن میں سے کچھ کا ذکر سابقہ آسمانی کتب میں رقم    ہیں، کچھ کا ذکر انبیاء علیہم السلام کی زبان مبارک سے ہوا ہے اور کچھ احادیث میں بیان ہیں، تاہم ان کی کل تعداد کے بارے میں کوئی ایک قول نہیں ہے، مواہب لدنیہ میں لکھا ہے کہ آپ ﷺ کے نام اور القاب قرآن مجید میں بہت آئے ہیں، چنانچہ بعض علماء نے ننانوے نام جمع کئے ہیں جو اللہ تعالی کے اسمائے پاک کی بھی تعداد ہے۔علامہ مجلسی اپنی کتاب بحارالانوار میں مناقب ابن شہرآشوب سے نقل کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ

" قرآن میں رسول اللہؐﷺکے لئے ذکر شدہ 400 نام اور لقب ذکر کئے ہیں۔اس موضوع پر بعض مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں

جن میں آنحضرت ﷺکے ہزار سے زائد لقب اور صفات ذکر ہوئی ہیں۔"(8)

قرآن کے آئینے میں اسماء و القابات رسولﷺ کے معنیٰ و مفہوم

محمد

محمد حبیب خدا ﷺکا سب سے مشہور و زبان ذد عام  ذاتی   اسم مبارک ہے جس کا ذکر قرآن میں  مختلف سورتوں    کی چار  آیات میں مذکور ہے۔ پہلی سورت سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۱۴۴ ہے جو جنگ احد میں رسول اللہ ﷺکی شہادت کی افواہ کے بعد نازل ہوئی تھی کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یاد دلاتا ہے کہ محمد ﷺبھی دوسرے انبیاء کی طرح ہیں اور آخرکار ان کی موت ہو جائے گی۔دوسری صورت سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۴۰ ہے جو زید بن حارثہ کے گود لینے، نسبت سے باپ ہونے کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور آپ ﷺ کے ختم نبوت کا اعلان   ہے تیسرا واقعہ سورہ محمد کی دوسری آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس پر ایمان لائیں جو رسول ﷺ پر نازل ہوئی تھی۔ چوتھی صورت سورہ فتح              کی ۲۹ویں آیت ہے جس میں خدادند عالم نے اپنے حبیبﷺ اور  ان کے اصحاب کے  پانچ اہم اوصاف بیان کئے ہیں ۔لفظ محمد حماد سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی  سراپا تعریف  یعنی اچھے اور خوشگوار اوصاف اور اخلاق رکھنے والے کے ہیں اور فارسی میں اس کے معنی تعریف کے بھی ہیں۔  محمد  امت مسلمہ میں سب سے زیادہ معزز انسانی  اسم  ہے، کیونکہ عالم اسلام میں سب سے پہلے جس  بلند ہستی  کو اس اسم سے جانا گیا  وہ حبیب خدا ﷺ ہیں، انکے بارہ  نائبیں  آئمہ علیہم السلام  میں بھی  تین اماموں کے اسماء میں اسم محمد  شامل ہے دنیا کہ ہرخطہ میں بسنے والے مسلمین کے گھرمیں لازمی ایک  محمد نام کا بچہ موجود ہوتا ہے۔ محمد بعض روایات کے مطابق یہ نام زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے خدا کے نام کے ساتھ تھا اور یہ کسی خاص وقت تک محدود نہیں ہے اور حضرت آدم اور حضرت موسیٰ بھی اس نام سے واقف تھے۔ابن بابویہ نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کیا کہ

"قرآن میں رسول اللہ ﷺکا نام محمد ہے۔ تو انہوں نے پوچھا: اس کی تعبیر کیا ہے؟ حضرت نے فرمایا: محمد کی تعبیر یہ ہے

کہ خدا، فرشتے، تمام انبیاء اور رسول اور اس کی تمام امتیں اس کی حمد و ثناء کرتی ہیں اور اس پر سلام بھیجتی ہیں اور

اس کا نام عرش پر لکھا جاتا ہے: ’’محمد خدا کے رسول ہیں۔""(9)

 احمد

"واَ ِذْ قالَ عیسَی ابْنُ مَرْیَمَ یا بَنی ِسْرائیلَ ِنِّی رَسُولُ اللَّہِ ِلَیْکُمْ مُصَدِّقاً لِما بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْراةِ وَ مُبَشِّراً بِرَسُولٍ یَأْتی مِنْ بَعْدِی اسْمُہُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جاء َہُمْ

بِالْبَیِّناتِ قالُوا ہذا سِحْر مُبین ۔"
ترجمہ:"اوراس وقت کو یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم (ع) نے کہا:اے ابنی اسرائیل ! میں تمہاری طرف خدا کا بھیجا ہوا رسُول ہُوں ،میں

اس کتاب کی جومُجھ سے پہلے بھیجی گئی ، یعنی تورات کی تصدیق کرنے والا ہُوں ،اورایک رسُول کی بشارت دینے والا ہوں جو

میرے بعد آ ئے گااوراس کانام احمد (ص) ہے لیکن جب وہ احمد(ص)معجزات اورواضح دلائل دکے ساتھ اُن کی طرف آیا

تو انہوں نے کہاکہ یہ توایک کُھلا جادُو ہے ۔"(10)

رسول اللہ ﷺ کا ایک اور مشہور نام احمد ہے جس کا تذکرہ قرآن مجید کی سورہ صف آیت نمبر۶ میں ہے احمد فقط ایک مرتبہ قرآن میں ذکر ہوا یہ بھی (حمد) سے ماخوذ ہے جس کے معنی  تعریف کیا ہوا، رب کی سب سے زیادہ تعریف کرنے والا۔دوسری روایات کے مطابق نام محمد ﷺزمین والوں کی تعریف میں شمار ہوتا ہے اور احمد ﷺآسمان والوں کی نظر میں زیادہ قابل تعریف سمجھا جاتا ہے۔معراج کی حدیث میں حضور ﷺکو ایک بار محمد کے نام سے اور کئی بار احمد کے نام سے مخاطب کیا گیا ہے اور بعض مفسرین کا خیال ہے کہ شاید احمد کا استعمال اس لیے زیادہ ہوا ہے کہ وہ نبی جنت میں احمد سے زیادہ مشہور ہے۔ حضور ﷺکی احادیث میں اس نبی کا نام تورات میں "احمد"، بائبل میں "احمد" اور قرآن میں "محمد" ہے۔امام محمد باقر علیہ السلام کی ایک روایت میں  رسول اللہ ﷺکے دس نام مذکور ہیں جن میں سے پانچ نام قرآن میں مذکور ہیں اور ان میں محمد، احمد، عبداللہ، ہاں اور ن شامل ہیں۔(11)

طہٰ

امام صادق علیہ السلام سے ایک روایت میں آیا ہے کہ

"طہٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور طہٰ کے معنی کی تشریح میں فرماتے ہیں: اے حق کو

تلاش کرنے والے اور فوراً ہدایت کرنے والے۔" (12)

دعائے ندبہ میں یہ مسئلہ بھی مذکور ہے، "یا بن طحہ و المحکمت؛ "اے زادے طہٰ اور عدالتوں۔" لفظ طٰہ میں بھی لفظ "طہ" کا مطلب ہے "محمد" ۔(13)

سورہ طٰہٰ کی پہلی آیات کے نزول کے بارے میں بہت سی روایات موجود ہیں جن سے یہ مستعمل ہے کہ آیات قرآنی کے نزول کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ عبادت اور دعا کیا کرتے تھے۔ خاص طور پر کھڑے ہو کر عبادت کرتے ہوئے اس قدر عبادت کی کہ ان کے پاؤں پھول گئے۔ بہت سی صحیح احادیث میں امام محمد باقر علیہ السلاماور امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺاپنی انگلیوں کے بل کھڑے رہتے تھے یہاں تک کہ آپ کے مبارک پاؤں پھول جاتے۔ تو خدائے بزرگ و برتر نے ان کو مخاطب کیا کہ:

’’ہم نے تم پر قرآن کو سیکھنے کے لیے نازل کیا ہے۔  اے محمد! ہم نے آپ کے پاس قرآن اس لیے نہیں بھیجا کہ آپ اپنے آپ کو تھکا دیں۔"(14)

یٰس

قرآن کی  ۳۶ ویں سورت میں رب العالمین  اپنے حبیب کو یٰس کہہ کر  مخاطب فرمارہا ہے۔امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ "یٰس" آخری نبی ﷺکے ناموں میں سے ایک نام ہے اور اس  کے معنی   رسول اور سیدھے راستے پر ہیں۔مستند احادیث  میں ہے کہ"یٰس" رسول اللہ ﷺکے ناموں میں سے ایک نام ہے اور "آل یٰس" اس نبی کے اہل بیت ہیں۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے: "السلام علیکم" آل یاسین۔ محمد ﷺ یٰس  ہیں اور اس کے معنی ہیں اے میری وحی کے سننے والے اور سننا نے والے! یہ "یا سید المرسلین" یا "یا سمیع الوحی" کا مخفف ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ: رسول اللہ ﷺنے اپنی اولاد کا نام "یس" رکھنے کی اجازت دی ہے۔ اے ابن یاسین یعنی اے فرزند رسول۔" (15)

اس کے علاوہ تفسیر صفی اور مجمع البیان میں امام صادق علیہ السلام اور امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ" رسول اللہ ﷺکے ۱۰ یا  ۱۲ نام ہیں جن میں سے ۵ کاقرآن میں ذکر کیا گیا ہے، اور ان میں سے ایک نام "یس" ہے۔" (16)

عبد اللہ

عبد کا تذکر  قرآن کریم کے متعدد ابواب میں رسول اللہ ﷺکے بارے میں مذکور ہے۔ ان میں سے: سورہ انفال آیت ۴۱، سورہ اسراء آیت ۱، سورہ کہف آیت۱، سورہ فرقان آیت ۱ شامل ہیں۔

" سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ"

"پاک و پاکیزہ ہے وہ پروردگار جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد اقصٰی تک لے گیا جس کے اطراف کو ہم

نے بابرکت بنایا ہے تاکہ ہم اسے اپنی بعض نشانیاں دکھلائیں بیشک وہ پروردگار سب کی سننے والا اور سب کچھ دیکھنے والا ہے۔" (17)

انبیاء کی تعریف میں، قرآن نے لفظ ''عبد'' کے بعد یا اس سے پہلے پیغمبروں کے خاص نام کا ذکر کیا ہے۔ جیسےسورہ "ص" کی ۴۱ ویں آیت میں حضرت ایوب سے خطاب کیا "عبدنا ایوب"  اور سورہ "ص" کی ہی  ۱۷ ویں آیت میں حضرت داؤد سے  "عبدانا داؤد" کہہ  مخاطب  ہےلیکن  اپنے حبیب کے بارے میں، یہ لفظ ہمیشہ نام یا کسی اور مشابہت کے بغیر مطلق شکل میں استعمال ہوا ہے۔ قرآن پاک میں کسی بھی صورت میں لفظ "عبد" کا ذکر بغیر اسم یا فعل کے نہیں ہوا، سوائے  اپنے حبیب کے، اظہار کا یہ طریقہ ظاہر کرتا ہے کہ حبیب اللہ ﷺایک مطلق بندے ہیں  خدا کا بندہ ہونا اعلیٰ ترین انسانی اقدار میں سے ایک ہے۔ بلکہ یہ اعلیٰ ترین انسانی قدر ہے۔ عبادت پرواز اور عروج کا پیش خیمہ ہے اور یہ برائیوں سے چھٹکارا پانے اور خوبیوں کے حصول کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ پس بندگی کا کمال ، جس کا مطلب ہے خدا کے علاوہ کسی اور سے آزادی کا کمال، رسول اللہ ﷺکی خصوصیات میں سے ہے۔

ن

" ن وَٱلقَلَمِ وَمَا يَسطُرُونَ " ،"ن، قسم ہے قلم کی اور اس کی جو کچھ کہ وه (فرشتے) لکھتے ہیں."(18)

سورہ قلم کے آغاز میں ہی  اپنے حبیب کے اسم نون کے ذریعے مخاطب ہے اوراگلی آیات میں بے انتہا اجر کا بیان فرمارہا ہے۔  ایک روایت میں ہے کہ امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: "رسول اللہﷺکے قرآن میں دس نام ہیں اور قرآن میں پانچ فہرستیں ہیں، جن میں آخری نام ہے۔ قرآن، محمد، احمد، عبداللہ، ہاں اور ن؛ رسول اللہ کے  ۱۰  نام ہیں جن میں سے ۵ قرآن میں اور ۵غیر قرآن میں ہیں۔ قرآن میں جو نام ہیں وہ یہ ہیں: محمد، احمد، عبداللہ،  یٰس  اور نون۔

حم

" حٰمٓ" وَالْكِتَابِ الْمُبِيْنِ" ،"حم ،روشن کتاب کی قسم ہے۔"(19)

رب العالمین  سورہ زخرف میں اپنے محبوب کو حم کہہ کر مخاطب ہے اور  پھر حکمت کی کتاب، واضح (اور روشن) کتاب کی قسم کھاتے ہوئےاپنے حبیب کو تسلی و دلاسہ دیتاہے  ۔ایک صحیح حدیث میں حضرت موسیٰ بن جعفر علیہ السلامسے مروی ہے کہ آپ نے "حم" کی تفسیر میں فرمایا: "حم" اللہ کی بھیجی ہوئی کتاب میں محمد ﷺکا نام ہے۔ (20)

شاہد،مبشراور نذیر

يَآ اَيُّهَا النَّبِىُّ اِنَّآ اَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيرًا" "

"اے نبی ہم نے آپ کو بلاشبہ گواہی دینے والا اور خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔"(21)

شاہد کے معنی گواہی دینے والا ،مبشر کے معنیٰ خوشخبری سنانے والااور نذیر کے معنٰی  ڈرانے والا ہے خداوند عالم نے قرآن پاک کی اکثر آیات    میں   ان اسماء  کا ایک ساتھ ذکر کر رہے ہیں جن میں   یہ سورتیں شامل ہیں    مائدہ سورہ  نمبر پانچ کی آیت ۱۹، البقرہ  سورہ  نمبر دو  کی آیت ۱۱۹،سباء سورہ  نمبر چونتیس   کی آیت  ۲۸،فاطرسورہ  نمبر پینتیس   کی آیت ۲۴،ہودسورہ نمبر گیارہ  کی  آیت ۲، احزاب سورہ تیتس کی  آیت ۴۵ ۔ خداوند عالم  اپنی کتاب میں  ہمیں بتادیا ہے کہ    اس رب نے اپنے حبیب کو حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے  تاکہ آپ سب لوگوں کو اللہ کے انعامات کی بشارت دیں اور  اس کے عذاب سے ڈرائیں۔  روایت میں آیا ہے کہ پیارے نبی ﷺفرمایا:

"اللہ تعالیٰ نے مجھے "نذیر" اس لیے کہا ہے کہ جو  خداوند عالم   کی  نافرمانی کرے گا میں اس کو  جہنم کی  آگ سے ڈرتا ہوں، اور اس

نے مجھے "بشیر" کہا کیونکہ میں رب کی اطاعت کرنے والوں کو جنت کی بشارت دو۔ "(22)

کنزالایمان  میں  شاہد کا ترجمہ ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر  کہا گیا ہےاگر تحقیق کی جائے تو  حاضر ناظر بہت  اعلیٰ  ترجمہ ہے۔مفردات راغب میں:اَلشُّہُوْدُ وَالشَّہَادَۃُ الْجُنُوْدُ مَعَ الْمُشَاہَدَۃَ اِمَّا بَاالْبَصَرِ اَوْبِالْبَصِیْرَۃِ یعنی شہود اور شہادت کے معنی حاضر ہونا مع ناظر ہونے کے بصر کے ساتھ ہو یا بصیرت کے ساتھ اور گواہ کو بھی اس لئے شاہد کہتے ہیں کہ وہ مشاہدہ کے ساتھ جو علم رکھتا ہے، اس کو بیان کرتا ہے۔رسول اللہﷺ تمام عالم کی طرف مبعوث ہیں، آپ کی رسالت عامہ ہے، جیسا کہ سورۂ فرقان کی پہلی آیت میں بیان ہوا تو آپ ﷺقیامت تک ہونے والی ساری خلق کے شاہد ہیں اور ان کے اعمال و افعال و احوال،تصدیق،تکذیب،ہدایت،ضلال سب کا مشاہدہ فرماتے ہیں، یعنی ایمان داروں کو جنت کی خوشخبری اور کافروں کو عذاب  جہنم کا ڈر دلاتے ہیں۔

نجم

" وَعَلَامَاتٍ ۚ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُوْنَ "

"اور نشانیاں بنائیں، اور ستاروں سے لوگ راہ پاتے ہیں۔"(23)

نجم کے معنی ستارے کے ہیں اللہ پاک اپنے حبیب کو ستارہ کہہ کر اس لئے مخاطب ہے جیسےرات کے وقت لوگ ستاروں  کی روشنی سے ہدایت پاتے ہیں بلکل اسی طرح رسول اللہ ﷺ ہمارے لئے ہدایت کے ستارے ہیں۔ نجم کا ذکر سورہ نجم کے ساتھ سورہ نحل میں بھی موجود ہے۔احادیث میں یہ تعبیر ہے کہ اس سے" مراد رسول اللہ ﷺجو کہ ہدایت کاروشن  ستارہ ہیں۔نیز اللہ تعالیٰ کے ارشاد ’’اور نشانیاں اور ستارے بھی ہدایت یافتہ ہیں‘‘تفسیر میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ’’نشانیاں‘‘ امام ہیں جو راہ ہدایت کی نشانیاں ہیں اور ’’ستارہ‘‘ ہے  وہ نبی ﷺجن کی طرف ان کی رہنمائی ہوئی تھی یعنی جس کی طرف وہ ہدایت یافتہ تھے ۔"(24)

ذکر

حضرت جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا کہ "ذکر" رسول اللہ ﷺکے ناموں میں سے ایک نام ہے جس کا حکم خداوند عالم نے قرآن میں دیا ہے کہ"جس چیز کو تم نہیں جانتے اس سے پوچھو۔ "یعنی  اہل ذکر سے پوچھو۔سورہ نحل کی آیت نمبر ۴۳ میں اور سورہ انبیاء کی آیت نمبر ۷ میں اپنے حبیب کو اہل ذکر فرمارہا ہے وہیں سورہ طلاق میں بیان  فرمارہا ہے کہ

"قَدْ اَنْزَلَ اللّهُ اِلَيْكُمْ ذِكْرًا"، بیشک اللہ نے تمہاری طرف ذکرنازل کیا ہے"(25)

رسول اللہ کو ذکر کہہ کر مخاطب کرنے کا سبب یہ بھی ہے کہ آپﷺ کو ذکر و نصیحت  کے لئےمبعوث فرمایا اور آپ ﷺ کا فرض منصبی ذکر و نصیحت ہی ہے۔

مزمل

علی ابن ابراہیم نے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مزمل اس لیے کہا کہ جب ان پر وحی نازل ہوئی تو آپ نے اپنے آپ کو کپڑے میں لپیٹ لیا۔

کنزالایمان کے معنی کے مطابق اے جھڑمٹ مارنے والے۔یعنی اپنے کپڑوں سے لپٹنے والے، اس کے شان نزول میں کئی قول ہیں۔بعض مفسرین نے کہا:ابتداء زمانہ وحی میں رسول اللہ ﷺخوف سے اپنے کپڑوں میں لپٹ جاتے تھے، اسی حالت میں آپ کو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ کویاایھالمزمل کہہ کرنداء کی۔ایک قول یہ ہے کہ آپﷺچادر میں لپٹے ہوئے آرام فرما رہے تھے، اس حالت میں آپ ﷺ کو ندا کی گئی یآیھا المزمل۔ بہرحال یہ نداء بتاتی ہے کہ محبوب کی ہر ادا پیاری ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے معنی ہیں :نبوت و چادررسالت کے حامل ولائق۔

"يَآ اَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ"، "اے چادر اوڑھنے والے۔"(26)

   ُمدثر

مدثر  کے معنی  چادراوڑھنے والاہے ایک روایت کے مطابق"مدثر" پکارنے کا سبب ہے کہ قبل از قیامت رسول ﷺکی واپسی کی ہے، جس کا مطلب ہے: اے اپنے آپ کو کفن میں لپیٹنے والے! اٹھو اور کھڑے ہو جاؤ اور ایک بار پھر لوگوں کو ان کے رب کے عذاب سے ڈراو۔

کنزالایمان کے تر جمے کے مطابق    مدثر کے معنی  اے بالا پوش اوڑھنے والے۔ حضرت جابر  بن عبد اللہ انصاری          سے  روایت  ہےکہ آپ ﷺنے فرمایا:میں کوہِ حراپر تھا، مجھے ندا کی گئی: یا محمد رسول اللّٰہ میں نے اپنے دائیں بائیں نظر کی تو کچھ نہ پایا، جب اوپر کی جانب نظر کی تو دیکھا کہ وہی فرشتہ جس نے ندا کی تھی، آسمان اور زمین کے درمیان بیٹھا ہے، یہ منظر دیکھ کر مجھ پر رعب طاری ہو گیا اور میں  ام المومنین  حضرت خدیجہ  سلام اللہ علیہا  کے پاس آیا اور میں نے ان سے کہا:مجھے چادر اڑھاؤ، انہوں نے چادر اڑھا دی، اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور انہوں نے کہا: یایھا المدثر

يَآ اَيُّهَا الْمُدَّثِّر            اے کپڑے میں لپٹنے والے۔"(27)

رسول  و نبی

رسول کے معنیٰ پیغام لانے والا کے ہیں آپ ﷺکا  یہ لقب بہت مشہورالقابات میں سے  ہے اور آپ کا قرآن میں کئی بار اس لقب کے ساتھ ذکر آیا ہے، اس لقب کی شہرت ایسی ہے کہ عالم اسلام کی تاریخی اور روایتی کتابوں میں اس کا عرفی نام اس کے نام سے زیادہ ذکر کیا جاتا ہے۔

بہت سی آیات میں لفظ رسول اور نبی اور ان کے مشتقات کو دہرایا گیا ہے اور ان میں سے اکثر صورتوں میں یہ رسول اللہ ﷺکے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ "نبی" وہ ہے جس پر وحی نازل ہوتی ہے اور جو غیب سے خبریں لے کر آتا ہے۔ یہ الہی پیغام کا اظہار کرتا ہے ۔ "رسول" وہ شخص ہے جو نبوت کے منصب کے علاوہ الٰہی دین کی دعوت اور تبلیغ کا ذمہ دار ہے۔رسالت نبوت سے بلند مقام ہے۔متعدد آیات میں "یا ایھاالنبی اور یا ایھا الرسول"کہہ کر خدادند عالم نے اپنے حبیب سے کلام کیا ہے۔سورہ یٰس کی  آیت نمبر ۳ میں " مرسل " کہہ کر مخاطب ہے جس کے معنی خصوصی پیغام کے ساتھ بھیجا گیا یعنی وہ نبی جو صاحب شریعت و کتاب ہو۔بحیثیت نبی مذید کچھ القابات  رب العالمین نے  اپنے حبیب کے لئے بیان کئے جیسے کہ نبی الرحمة   یعنی ساری مخلوق کے لئے رحمت، نبی التوبة  یعنی  جس کی برکت سے امتیوں کے گناہ معاف ہوجائیں  اور نبی الملاحم  یعنی جس کے دور میں کثرت سے جہاد ہوا، بعض علماء نے یہ مراد لیا کہ جس کے دور میں کثرت سے اختلافات جنم لیں گے۔
خاتم الاانبیاء

نبی کا معنی غیب کی خبر دینے والاہے ۔ جس انسان کو خدادند عالم نے ہدایت کے لیے وحی بھیجی ہو اسے نبی کہتے ہیں ۔رسول اللہ ﷺکے مشہور القابات میں سے ایک مصحف اور خاتم الاانبیاء ہے جس کا مفہوم وہی ہے جو قرآن میں ’’خاتم النبیین‘‘ ہے یعنی کے آپ کے بعد ناکوئی نبی آئے گا اور نا کوئی رسول آپ پر نبوت کا اختتام ہے۔آپ کے  خاتم الاانبیاء     ہونے کا  ذکر قرآن حکیم کی ۱۰۰سے بھی زیادہ آیات میں نہایت ہی جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے۔"عاقب" جس کے معنی پیچھے آنے والا یعنی سارے انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد آنے والا آخری نبی اور" مُقَفّی" سارے انبیاء کرام علیہم السلام کے پیچھے آنے والا آخری نبی۔
سراج المنیر

سراج معنی  چمکتا ہوا اورمنیر معنی چراغ  یعنی  سراج منیرکے معنی روشن چراغ کے ہیں   رب العالمین  سورہ احزاب کی آیت نمبر  ۴۶    میں اپنے محبوب سے فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں خدا کے حکم سے دعوت دینے والا اور روشنی دینے والا چراغ بنایا ہے یعنی رسول اللہﷺ کی ذات اقدس تمام جہانوں کے لئے روشنی کا منبع ہیں ۔سراج کا ترجمہ آفتاب قرآن کریم کے بالکل مطابق ہے کہ اس میں آفتاب کو سراج فرمایا گیا ہے، جیسا کہ سورۂ ٔنوح میں وجعل الشمس سراجا اور آخری پارے کی پہلی سورت میں ہے:وجعلنا سراجا وہاجا اور درحقیقت ہزاروں آفتابوں سے زیادہ روشنی آپ کے نورِ نبوت نے پہنچائی اور کفرو شرک کے ظلماتِ شدیدہ کو اپنے نورِ حقیقت افروز سے دور کر دیا اور خلق کے لئے معرفت و توحیدِ الہٰی تک پہنچنے کی راہیں روشن اور واضح کردیں اور ضلالت کی وادی تاریک میں راہ گم کرنے والوں کو اپنے انوارِہدایت سے راہ یاب فرمایا اور اپنے نورِ نبوت سے ضمائر و بصائر اور قلوب و اَرواح کو منور کیا،حقیقت میں آپ کا وجود مبارک ایسا آفتاب عالم تاب ہے، جس نے ہزارہا آفتاب بنا دیئے،اسی لئے اس کی صفت میں منیر ارشاد فرمایا گیا۔

منذر

"اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرٌ ۖ وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَاد"ٍ

"تم تو محض ڈرانے والے ہو، اور ہر قوم کے لیے ایک رہبر ہوتا آیا ہے۔"(28)

منذر کے معنی ڈرانے والا ہے اللہ تعالیٰ نے  اپنے حبیب کو  فرمایاآپ تمام امتوں کے لیے ڈرانے والے اور رہنما ہیں۔ یعنی ایسا رہنما جو خوف خدا کے ذریعے درس و تبلیغ کرے۔

داعی

داعی کے معنی درخواست گزار، دعا کرنے والا کے ہیں" ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:

"خدا نے مجھے اس لیے پکارنے والا کہا ہے کہ میں لوگوں کو اپنے رب کے دین کی طرف دعوت دیتا ہوں"

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور اللہ سے اس کی اجازت سے دعا مانگو اور روشن ہو جاؤ‘‘(29)

اُمی

اُمی کے بہت سے معنی ہیں کیونکہ عربی لغت میں ایک لفظ کے بے شمار معانی ہوتے ہیں، اُمی کا ایک معنی ہے اصل، جڑ۔پر جو زبان ذدعام ہیں  وہ ایسی شخصیت جو کسی سے پڑھی نہ ہو اور ساری دنیا کے علوم اسے آتے ہوں، یہی معنی رسول ﷺکے لیے ہے۔ اسی وجہ سے آپ  ﷺکو امی کہا جاتا ہے۔

"اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِىَّ الْاُمِّىَّ الَّذِىْ يَجِدُوْنَه مَكْتُوبًا عِنْدَهُـمْ فِى التَّوْرَاةِ وَالْاِنْجِيْلِۖ يَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لهُمُ"

"وہ لوگ جو اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو اُمّی نبی ہے جسے اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، وہ ان کو نیکی کا

حکم کرتا ہے اور برے کام سے روکتا ہے "(30)

برہان

برہان کے معنی ثبوت، دلیل ،حجت وناقابل تردید دلیل کے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایااے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آچکی ہے دراصل برہان سے مراد  رسول اللہﷺ کی ذات اقدس ہی ہے کیونکہ  آپ ﷺ نے جس  معاشرے میں آنکھ کھولی وہ علم و تمدن سے بلکل بے بہرہ تھا ایسے معاشرے میں  ایک برہان ایسی ہستی جو ایک انسان ساز دستور حیات  لےکر آتا ہے  جس کی مثال  پیش کرنے سے تمام عالم انسانیت قاصر ہے ۔خود خداوند عالم اپنے کلام میں فرماتاہے کہ

يَآ اَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ نُوْرًا مُّبِيْنًا"

"اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک دلیل آ چکی ہے اور ہم نے تمہاری طرف ایک واضح روشنی اتاری ہے۔"(31)

نور

يَآ اَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ ۚ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّكِتَابٌ مُّبِيْنٌ"

"اے اہل کتاب! تحقیق تمہارے پاس ہمارا رسول آیا ہے جو بہت سی چیزیں تم پر ظاہر کرتا ہے جنہیں تم کتاب میں سے چھپاتے تھے اور

بہت سی چیزوں سے درگزر کرتا ہے، بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی اور واضح کتاب آئی ہے۔"(32)

نور کے معنی روشنی و اجالا ہیں اللہ تعالیٰ نے  اپنے حبیب کے لئےفرمایا کہ تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی  ونور آیا ہے۔ خداوند عالم نے اس آیت میں نور اس لئے کہا اپنے حبیب کو کہ جہاں آپ کو بھیجا تھا وہ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا خطہ تھا جو آسمانی کتب کی تعلیمات کو بھی چھپا دیتا تھا اور حبیب خدا کے نور نے اس اندھیرے کو پچھار دیا۔

رحمۃا للعالمین

سورہ انبیاءکی آیت ۱۰۷ میں خدادند عالم  اپنے حبیب کا ناصرف رحمت  نہیں  بلکہ رحمۃ للعالمین کہہ کر تعارف کروارہا ہے  یعنی وہ ہستی  جو تمام جہانوں کے لئے رحمت ہی رحمت ہے۔

بینہ

لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكِّيْنَ حَتّٰى تَاْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ"

"اہلِ کتاب میں سے کافر اور مشرک لوگ باز آنے والے نہیں تھے یہاں تک کہ ان کے پاس کھلی دلیل آئے۔"(33)

بینہ   کے معنی ہیں واضح  دلیل   ہےخداوند عالم اپنے حبیب  کو  بینہ اس لئے پکار رہا ہے کیونکہ مشرکین سرکش تھے اور حکم خداوندی   کو ماننے کو  تیار  نا تھے   یہاں تک کہ ان کے پاس کوئی واضح دلیل آجائے۔

خلاصہ

جس سے محبت ہوتی ہے، اس کو مختلف ناموں اور القاب سے یاد کیا جاتا ہے، حضور اکرم ﷺ بھی اس کائنات کی محبوب ترین ہستی ہیں، آپ ﷺ کا وجود مسعود روئے زمین کے بسنے والے انسانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ساری کائنات کے لئے رحمة للعالمين ہے، اس لئے آپ ﷺ کے بھی کئی نام اور القاب ہیں جو تقریبا ایک ہزار سے زائد ہیں۔  رب العالمین اپنے حبیب  سے  بے انتہا محبت فرماتا ہے جس کا اظہارمختلف لطف و کرم، قرب و حب  والے اسماء و القابات  میں فرماتا ہے اللہ تعالیٰ نے  اپنے حبیب   کو بڑے لطیف انداز میں پکارا ہے۔ آپ  امام الانبیاء ، سیدالمرسلین جناب محمد مصطفی ﷺ بے شمار اعلی صفات ،و خصائل و خصائص کے حامل ہیں،لیکن  رب العزت کی طرح ان کے ننانوے نام کسی صحیح یا ضعیف روایت میں منقول نہیں۔ رسول اللہ  ﷺ کے  ذاتی نام صرف دو ہیں۔ ’’محمد‘‘اور ’’احمد‘‘ اور  صحیح  بخاری میں  آپ ﷺ کے صرف اور صرف پانچ نام وارد ہیں، آپ کا ارشاد ہے :میرے پانچ نام ہیں : میں محمد ہوں ۔اورمیں احمد ہوں ۔ اورمیں ’’ماحی‘ ہوں ، جس سے اللہ تعالی کفر کو مٹادیتا ہے ۔ اور میں ’’حاشر‘‘ ہوں ، میرے قدموں پر اللہ تعالی لوگوں کو اکٹھا کرے گا ۔ اور میں ’’عاقب (یعنی آخری نبی)‘‘ ہوں ۔(34)

  علامہ مجلسی اپنی کتاب بحارالانوار میں مناقب ابن شہرآشوب سے نقل کرتے ہوئے قرآن میں رسول اللہؐ کے لئے ذکر شدہ 400 نام اور لقب ذکر کئے ہیں۔رسول اکرم ﷺ کے اسماء مبارکہ کے بارے میں علماءنے  کئی کتب لکھیں ہیں اور اسی طرح سیرت کی کتب میں ابواب بھی قائم کئے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ کا ہر ایک اسم و لقب  جداگانہ منفرد و اعلیٰ معنیٰ و تاثیر رکھتا ہے یہ تمام اسمائے گرامی عظیم برکتوں عظمتوں اور خصوصیتوں والے ہیں اور اللہ پاک نے ہر نام کی الگ تاثیر اورمنفرد انقلاب انگیزی رکھی ہے۔ اللہ پاک نے اپنے حبیب،احمدِ مجتبیٰ، محمدِ ﷺ کو ان محامدو محاسن،خصائص و امتیازات اور کمالات و معجزات سے نوازا جو کائنات میں کسی دوسرے نبی یا رسول کو عطا نہیں کئے گئے۔ لیکن علماء کے درمیان  اس کی تعداد میں اختلاف پایا جاتا بعض علماء رسول اکرم ﷺ  کی جو صفات قران مجید میں بیان ہوئی ہی ان کو بھی اسماء میں شمار کرتے ہیں۔لیکن بعض علماء ان صفات کو اعلام میں شامل نہیں کرتے ۔لہذا ان اسماء اور صفات پر اکتفا کرنا چاہئے جو قرآن وسنت سے ثابت ہوں۔اور مبالغہ آرائی والے اسماء وصفات کی نسبت رسول اکرم ﷺ کی طرف بالکل بھی جائز نہیں۔اور نہ ہی مصاحف   میں اسماء الحسنی کی طرح اسماء الرسول کو شائع کرنا چاہیے۔ جس قدر خدادند عالم  نے اپنے حبیب کے احترام و ادب کا اہتمام کیا ہے مختلف آیات میں آوازکی بلندگی کا پیمانہ بیان کیا،  پہلے قدم  آگے  رکھنے کے حوالے سے بیان کیا  ،عزت و تکریم  میں اپنے جیسا  سمجھنے سے منع فرمایا وغیرہ۔بحیثیت مسلمان ہم پر لازم و فرض ہے کہ جس ہستی کو ہمارا   پروردگار اتنا عزت و احترام عطا فرمارہا ہے  ہم اس پر  دل کی گہرائیوں سے عمل پیرا رہیں۔

آراء و تجاویز

اس تحقیقی عمل کے اختتام پر تجاویز کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے کیونکہ موجودہ تحقیق ایک محدود دائرے میں کی گئی ہے لہٰذا پہلے حصے میں تجویز دی جاتی ہے کہ اس کے دیگر پہلوؤں پر مزید تحقیق کے لئے کچھ اور محققین جستجو کریں اور انکا احاطہ کریں اس لئے محقیقین کرم کے لئےا ن پہلوں اور نکات کا ذکر کرنا چاہوں گی جو راقم کی حدود تحقیق سےباہر تھے ۔ اس  موضوع "رسول اللہﷺ کے اسماء اور القابات قرآن کے آئینے" میں  مطالعہ  سے اندازہ ہوا کہ  درجہ ذیل موضوعات پر کام نہیں ہواہےاس لئے ان موضوعات پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اول حصہ :مجوزہ تحقیقی موضوعات برائےمحقیقین:

1_اسماء اور القابات رسول خداﷺ میں پوشیدہ حکمتیں اور فلسفے

2_اسماء رسول ﷺکے ورد کرنے کا ثواب و اجر

3_اسماء و صفات رسول اکرم ﷺکے فوائد و ثمرات ؟

دوم حصہ:برائی ہر خاص و عام:

1. جیسا کہ یہ بات تحقیق سے ثابت ہوچکی ہے کہ کسی مستند حدیث و روایت سے اسماء و القابات  کی  تعداد پر اکتفا نہیں ہے  اس لئے ان اسماء و القابات پر  متفق  ہونا  چاہیئے  جو قرآن وسنت سے ثابت ہیں کیونکہ  مبالغہ آرائی والے اسماء والقابات کی نسبت رسول اکرم ﷺ کی طرف بالکل بھی جائز و درست عمل  نہیں ہےاور نہ ہی ا سماء الحسنی  کا اسماء الرسول سے تقابل کرنا چاہیئے اور نا ہی  قرآنی  نسخوں میں  ان کو شائع کرنا چاہیے۔ جس قدر خدادند عالم  نے اپنے حبیب کے احترام و ادب کا اہتمام کیا ہے بحیثیت مسلمان ہم پر لازم و فرض ہے کہ جس ہستی کو ہمارا   پروردگار اتنا عزت و احترام عطا فرمارہا ہے  ہم اس پر  دل کی گہرائیوں سے عمل پیرا ءرہیں اور اسماء والقابات  رسول کو صرف  اپنے بچوں کے نام رکھنے تک محدود نا رکھیں بلکہ ان کے معنیٰ و مفہوم کو عملی طور پر اپنی زندگی اور اپنےمعاشرے پر لاگو کرنے کی بھرپور کوشش کریں ۔خداوند عالم اپنے حبیب کے صدقے میں ہمیں ان تجاویز پر عمل کرنے کی توفیق عطا ء فرمائے آمین۔

حوالہ جات

1۔القرآن:  33/56

 شیخ صدوق، محمد بن علی،علل الشرائع،(مؤسسۃ الاعلمی ،2006) جلد 1، صفحہ 128۔

    3 - https://www.facebook.com ›

نعیمی، محمدعارف، اسماء النبی لغۃً و اصطلاحاً، اشراف خالق داد،( لاہور:جامعۃ پنجاب قسم اللغۃ العربیہ،2006 )

تبریزیان، عباس، اسماء الرسول المصطفی و القابہ و کناہ و صفاتہ، با تلاش ہاشم خاتمی،( بیروت: دار الاثر، 1423ھ)

6۔ القرآن:10/16

مودودی، سید ابو الاعلیٰ،تفہیم القرآن ،(لاہور: ادارہ  ترجمان القرآن ،) ج6، ص59

مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، (تہران: اسلامیہ، 1363ہجری شمسی) ، ج16، ص107-101

9۔ شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ(قم:جماعۃالمدرسین فی  الحوزۃ العلمیۃ،1404ھ)، جلد 4، صفحہ 178۔

 10۔ القرآن: 61/6

11۔ شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، جلد 4، صفحہ 177  

12۔سید ابن طاووس، علی ابن موسی، الاقبال بالمال الحسنۃ، جلد 1، صفحہ 510

13۔قمی، علی ابن ابراہیم، تفسیر قمی، (قم:مؤسسہ دارالکتاب للطباعۃ والنشر)ج 2، ص 58

14۔القرآن:20/1-2

15۔سید ابن طاووس، علی ابن موسی، الاقبال بالمال الحسنۃ، جلد 1، صفحہ 510

16۔شیخ طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر  القرآن،(بیروت:موسۃ الاعلمی المطبوعات،1995) جلد 8، صفحہ 255

17۔ القرآن:17/1

18۔القرآن:1/68

19۔القرآن:43/1-2

20۔  کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی،(تہران: دار الکتب الاسلامیۃ،1407ق) ج1، ص479

21۔القرآن:33/45

22۔علامہ مجلسی ، محمد باقر، بحار الانوار، جلد 16، ص 96 

23۔القرآن:16/16   

24۔علامہ مجلسی ، محمد باقر، بحار الانوار، جلد 16، ص 96 

25۔ القرآن:65/10

26۔ القرآن:29/1

27۔ القرآن:74/1

28۔ القرآن:13/7

29۔ شیخ صدوق، محمد بن علی، معانی الاخبار، ص 52۔

30۔ القرآن:7/15

31۔ القرآن:4/174

32۔ القرآن:5/15

33۔ القرآن:98/1

34۔بخاری، محمد بن اسماعیل ، صحیح بخاری ، مترجم محمد داؤد راز دھلوی،(دہلی:ناشر مرکزی جمعیت الحدیث ہند 2004) ح،3532

منابع

1۔القرآن

2۔قادری،محمد طاہر،اسمائے مصطفیٰ،(لاہور:منہاج القرآن پبلیکیشنز،نومبر 2002 )

3۔مصطفیٰ،محمد طاہر، فلسفہ اسمائے رسول،(لاہور:الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب، نومبر 2008)

4۔سپرا،محمد ایوب،اسماء الرسول:پیارے رسول کے پیارے نام،(کراچی:مکتبہ سبل السلام،مارچ 2010 )

5۔ابوعیسیٰ محمد بن سورہ بن شداد،مترجم عبدالرحمٰن بن عبدالجبار الفرایوائی، سنن ترمذی،(لاہور:مکتبہ بیت السلام،30 جون ،2017)ج:2095

6۔بخاری ،ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل ، مترجم مولانا محمد داؤد راز،صحیح بخاری(ہند:مرکزی جمعیت اہل حدیث،2004)ج:1،ح:71

                       7 ۔سیو ہاروی، محمد حفظ الرّحمٰن،قصص القرآن،(کراچی:دارالاشاعت اردو بازار،2002)

8۔علوی:عبدالعزیز،تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم،(لاہور:نعمانی کتب خانہ،5 دسمبر،2017) ج:1،ح:73

9۔ شیرازی،آیت اللہ ناصر مکارم ، تفسیرِ نمونہ، مترجم مولانا سید صفدر حسین نجفی ،(لاہور:مصباح القرآن ٹرسٹ، ربیع الثانی 1417ھ)

10۔ مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، (تہران: اسلامیہ، 1363ہجری شمسی) ، ج16، ص107-101

Post a Comment

0 Comments