سیدہ شمائلہ رباب
رضوی
ایم فل اسکالر-شاہ
عبداللطیف یو نیورسٹی ، خیر پور
تابوت سکینہ کی تلاش کا سبب ایک تحقیقی جائزہ
Abstract
It
is description/discussion of an enigmatic miraculous covenant. It is 4000 years
old and still important. Owing to Day of Judgment it has been found with zeal
zest. From Hazrat Adam (A.S) to Prophet Mohammad (S.A.W.W) it was part and
parcel of every prophet. Allah also describe in the Holy Quran (Surah Baqrah
–verse- 248). If was present with every Prophet that’s why it contained
with/teemed with symbols of Prophets. For placing this covenant Haikal
Sulaimani was established. This covenant not only important for Christian and
Jews but also significant for Muslims. It is a miraculous covenant which is
made of wood and gold but it is symbol of victory and success for the people of
Bani Israel. Because whenever this covenant was present in the war with Bani Israel
they attained victory. For that content in this present era Bani Israel has
given it a religious status. Because they want to achieve their spiritual power
after attaining this miraculous covenant. It was revealed that people of Bani
Israel got comfort from it. It is the sole reason to call it “Taboot-e-Sakina”.
It was used to take important decision but due to disrespect and disobedience
it was snatched from them. For getting it back they are still in struggle.
Those who acquired it forcefully they became ill in malignant diseases. Now a
day’s all countries of the world try to find, but according to a saying of
Prophet Mohammad (S.A.W.W), “It is present in a cave at Turkey”. And it will be
extracted by Imam Mehdi (A.S) and He will enforce rule of justice.
According to the
Holy Quran,”It is comfort for believers and there are symbols inside it for
believers”.
؛ سکینہ،ہیکل سلیمانی، عمالقہ،آثارِ قدیم:کلیدی الفاظ
مقدمہ
ہر دور میں مسلمان ،عیسائی اوریہو دی ایک دوسرے کے مخالف رہے ہیں مگرایک نقظ جس پر تینوں مذاہب متفق ہیں وہ ہے تابوت سکینہ ۔یہ ایک معجزاتی و کراماتی تابوت ہے جس کے وجود کا
اعلان خود خداوند کریم اپنے کلام بلاغت میں سورہ بقرہ کی آیت ۲۴۸ میں فرما رہا ہے
اور اسے مومنوں کے دل کا سکون قرار دے رہا ہے اور آدم سے خاتم تک تمام انبیا ءکی میراث رہنے کے سبب اس میں تمام انبیاء کے تبرکات موجود ہیں جس
کےوجہ سے اسکی عزمت و حرمت بھی بہت زیادہ ہے اس تابوت کو رکھنے کے لئے یہ
ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی گئی جو نہ صرف عیسائی و یہودیوں بلکے مسلمانوں میں بھی
بہت مقدس ہے۔بنی اسرائیل کے لئے اس کی اہمیت اوربھی کچھ زیادہ کیونکہ یہ تابوت ان کی عزمت فتح و کامرانی کی
علامت تھا اس لئے آج بھی بہت سارے ماہر آثار قدیمہ اور خصوصا"یہودی مذہب
سے تعلق رکھنے والے ماہر اسکی تلاش میں سرکرداں ہیں تاکہ اس کو ڈھونڈ کر وہ اپنی
اسی روحانیت کو واپس پا سکیں جو کبھی ان کو عطا کی گئی تھی۔ آج دور حاضر میں پوری
دنیا کے مختلف ممالک اسکو ڈھونڈھنے،ملنے
اور اپنے پاس ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ احادیث
کے مطابق یہ ترکی کے کسی غار میں موجود ہے اور امام مہدی آکر اسے نکالیں گےاور دنیا میں چار
سو انصاف کا بول بالا ہوگا۔ اس موضوع پر ایک فلم بھی بنائی گئی تھی۔
" Indiana Jones and the Raiders of the Lost Ark" (1) یہ فلم
۱۹۸۱میں بنائی گئی تھی جس نے شہرت کی بلندیوں کو چھولیا تھا اس فلم کا مرکز ایک
معجزاتی تابوت تھا۔اس فلم میں یہ دیکھایا گیا ہے کہ ایک معجزاتی و کراماتی تابوت
ہے جسکی تین ہزار سال سے تلاش کی جارہی ہےاور اس
تابوت کی کھوج کے لئے عیسائی اور بلخصوص یہودی قوم کے افراد،مذہبی تعلیم سے
پہلے اور ضرور آثار قدیمہ کی تعلیم حاصل
کرتے ہیں اور آرکیالوجسٹ یعنی ماہر آثارقدیمہ بنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں
اسی لئےدنیا کے ناموراور ماہرترین افراد
جو آثار قدیمہ سے وابستہ ہیں وہ یا تو عیسائی ہیں یا لازماً یہودی۔اس فلم کا آغاز
۱۹۳۶ جنوبی امریکہ سے دیکھایا گیا ہے جہاں سے مصر کے شہر کائیرو میں کھدائی کےلئے
کچھ افراد کو خفیہ طور پربھیجا جا رہا تھا کیونکہ وہاں
جرمن نازی فوج اس کوشش میں
تھی کہ اس زمین میں کہیں دفن اس تابوت کو
نکال کر ہٹلر کو پیش کیا جائے۔اسی فلم کے
مطابق۹۸۰ قبل مسیح سے وہ تابوت یروشلم میں دفن ہےاور فلم میں ایک آثار قدیمہ کے ماہر کے مطابق
یہ تابوت ٹینس کے شہر میں دفن ہے کیونکہ فرعون کے مصر لوٹنے کے ایک سال بعد تباہ ہوگیا تھا اورریت کا میدان بن گیا تھا کیونکہ یہاں پر عذاب الٰہی
نازل ہوا تھا۔اس فلم میں موجود سبھی
افراد کو ایک ایسی چھڑی کی بھی
تلاش تھی جسکے سر پر ایک کرسٹل ےتھا جسکو ایک خاص نقشے والے کمرےمیں گاڑاجائے تو
وہ سورج کی روشنی کی مدد سے اس تابوت کے راستے کی نشاندہی کرے گی۔اسی فلم میں
بائیبل میں اس تابوت کے کئی حوالے دیئے گئے ہیں۔فلم کے اختتام میں یہ دیکھایا گیا
ہے کے ماہر آثار قدیمہ اسے ڈھونڈ لیتے ہیں مگر نازی فوجی ان سے تابوت چھین کر
زبردستی کھولنے کی کوشش کرتےہیں اور جیسے ہی وہ اس کو کھولتے ہیں ایک غضب ناک عذاب
ان پر نازل ہوتا ہے جو ان کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے مگر اُسی جگہ پر موجود فلم کے
مرکزی کرداروںکو آنچ تک نہیں آتی کیونکہ دوران عذاب وہ اپنی آنکھیں بندرکھتے ہیں اور زبردستی تابوت
کے اندر موجود چیزوں کو دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے جسکے سبب وہ محفوظ رہتے ہیں۔
یعنی اس فلم
کانام جسکے معنی جو اوکسفرڈ لغت کےمطابق
"حملہ کرنےیا چھاپا مارنے والےکےہیں"۔ (2)”Raiders”
اس فلم کو
دیکھنے کے بعد اس کے نام کے معنی
حملہ کرنے والے نے کچھ چونکایااور
دوسرا تابوت کی دیوانہ وار تلاش کا سبب جاننے کا
تجسس جاگا کے آخر ایسا کیا ہے؟ اس تابوت میں جسکے حصول کے لئے عیسائی اور یہودی اتنا بےقرار ہیں کے
انہوں نےمذہبی تعلیم سے مقدم آثار قدیمہ کی کھوج کو رکھ دیا ؟اس تجسس کو
دور کرنےکے لئے جب ذرائع ابلاغ نشرو اشاعت
کا سہارا لیا تومعلوم ہوا کہ ا س تابوت کا
ذکر توخود خدا وند کریم اپنے کلام بلاغت
میں فرما رہا ہے۔
وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ
إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ
رَبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِمَّا تَرَكَ
آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ
تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ ۚ
إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
ترجمہ؛"ان
کے نبی نے پھر کہا کہ اس کی بادشاہت کی
ظاہری نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق آجائے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے تسلی بخشنے والی چیز
ہے اور آل موسٰی اور آل ہارون کا
بقیہ ترکہ ہے۔فرشتے اسے اٹھا کر لائیں گے۔
یقیناً اس میں تمہارےلئے کھلی نشانیاں ہیں اگر تم ایمان والے ہو"۔(3)
Sahih
International
And
their prophet said to them, "Indeed, a sign of his kingship is that the
chest will come to you in which is assurance from your Lord and a remnant of
what the family of Moses and the family of Aaron had left, carried by the
angels. Indeed in that is a sign for you, if you are Believers.”
ترجمہ پڑھنے
کے بعد دل کچھ اور مضطرب ہوگیا !کیونکہ
بات کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کیسے ایک صندوق سکون و اطمینان کا سبب ہوا اور اسکی اتنی عظمت کے فرشتے اسے اٹھائے ہوئے ہیں اور
آخری بات نے مزیدالجھا دیا کہ اگر ایمان والے ہو تو اس میں تمہارے
لئے نشانیاں ہیں اگر بظاہر دیکھا جائے تو ایمان والے تو سبھی
ہیں خواہ وہ عیسائی ہو یہودی یا مسلم سبھی
اپنی نبیوں کی تعلیمات اور اللہ پر اپنے اپنے طریقے سے ایمان رکھتے ہیں تو اس آیت میں خداوند کریم
کن ایمان والو ں سے مخاطب ہے؟ اورترجمے کے مطابق تواس میں کسی تابوت سکینہ کا ذکر نہیں تو اسکا
نام سکینہ کیسے پڑا؟ مزید کھوج کے لئے اپنے قرب و جواہر کے کچھ مختلف شعبا جات زندگی کے لوگوں سے اس تابوت کے بارئے میں پوچھا تو جواب سن کر مایوسی ہوئی ! ہاں شاید قرآن میں
ایک یہودیوں کے صندوق کا ذکر ہے اسکے
علاوہ اس کی تاریخی اور مذہبی اہمیت سے لا علم ،کچھ لوگوں نےتو نہایت دلچسپ اور حیرت انگیزجواب دیتے ہوئے اس تابوت کو امام
حسین کی دختر سکینہ کا تابوت بنا دیا جبکے یہ واقعہ چار ہزار سال پرانا ہے اور تابوت تین ہزار سال سے کھوجا جا رہا ہے اور
دختر امام حسین کی شہادت اکسٹھ ہجری میں ہوئی۔حیرت ہوتی ہے اپنی معاشرے کے
افراد کی علمی قابلیت کو جان کر!معذرت کے
ساتھ۔خود کتب بینی کا آغاز کیا تو لفظی نہیں حقیقی چودہ طبق روشن ہوگئے اور کچھ
شرمندگی کا بھی احساس ہواکے قرآن میں موجود
ایسے معجزات جنکا ہماری موجودہ زندگی سے گہرا تعلق ہے ہم لاعلم ہیں۔
تعارفِ تابوت؛
دراصل تابوت عربی اور عبرانی زبان کا لفظ ہے جسکے معنی صندوق کے ہیں۔اردو لغت کے مطابق لفظ
تابوت مزکر ہے اس کے معنی "صندوق جس میں مردے کی لاش رکھتے
ہیں"۔(4)
لیکن لفظ
تابوت صرف لاشوں یا مردوں کے لئے مخصوص
نہیں بلکہ ہر قسم کی لکڑی،لوہے کے خاص بناوٹ کے ڈبے کو صندوق یا تابوت کہتے ہیں
اور اس میں کچھ بھی رکھا جا سکتا ہے خود اس کی مثال تابوت سکینہ ہے جس میں انبیاء
اکرام کی معجزاتی اشیاء موجود ہیں۔تابوت ،سے مراد صندوق ہے، تابوت کے لفظی اشتقاق کے بارے میں کہا گیا ہے یہ مادہ"توب"باب
'فطوت'کے وزن پر ہے۔ "توب " کا معنی رجوع کرنا اور پلٹ کر آنا ہے، صندوق
کو تابوت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ انسان باربار اور پلٹ پلٹ کر اس کی طرف آتا ہے۔تفسیر ٍمظہری کے مطابق تابوت بمعنی لکڑی کا صندوق عموماً مستعمل ہے
اس کی جمع توابیت ہے۔سکینتہ یعنی اس میں
ایسی چیزیں رکھی ہوئی ہیں جن سے تمہاری تسکین ہو جائے گی ۔یا تابوت کی واپسی کا
امرای فی اتیانہ سکون لکم و طمانیتہ، سکینتہ،تسکین،تسلی خاطر،اطمینان، سکون سے بر
وزن فعیلتہ مصدر ہے جو اسم کی جگہ استعمال ہوا ہے ۔جیسے کہ عزیمتہ ہے۔
علامہ بغوی سید محمد مر تضے زبیدی لکھتے
ہیں:"سکینہ وہ اطمینان،چین وقرار اور سکون ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے
کے قلب میں اس وقت نازل فرماتا ہے جب کہ
وہ ہولناکیوں کی شدت سے مضطرب ہوجاتا ہے
پھر اس کے بعد جو کچھ بھی اس پر
گزرے وہ اس سے گھبراتا نہیں ہے یہ اس کے لئے ایمان کی زیادتی،یقین مین قوت
اور استقلال کو ضروری کر دیتا ہے"۔(6)
بے شک آیت سورہ بقرہ۲۴۸ میں تابوت کو کوئی نام نہیں
دیا گیا مگر یہ
واضح الفاظ میں بتا دیا گیا کہ اس میں تمہارے رب کی طرف سے سکینت ہے
لفظ"سکینتہ" سکون کے مادے سے ہے اورتسکین وآرام کے معنی میں مستعمل ہے ۔یہا ں اس سے مراد جان و دل کا سکون اور اطمینان ہے۔اس لئے
اس تابوت کوتابوت سکینہ کے نام سے جانا
جانے لگا اس کے علاوہ اس کو اور بہت سے ناموں سے جانا
جاتا ہے۔انگریزی میں اس کو" دی آرک آف دی کوینینٹ
جس کے معنی
عہد کا صندوق ہے۔“The Ark of the Covenant
"عہد کا صندوق، میثاق
کاصندوق،پاک صندوق، خدا کا صندوق
(۱۔سیموائیل ۳ : ۳ ) خدا کی قوت کا صندوق، عہد کا صندوق (یشوع ۳:۶،عبرانیوں۴:۹) تمام زمین کے خدا
وند کے عہد کا صندوق،گوہی کا صندوق(خروج۲۲:۲۵ )"
Dr .J.Handall Price Author Researcher of “The Covenant Temple”
کے مطابق یہ ناپ تول یا سائز مصر
کے مطابق تھا کیونکہ مصر میں شاہی گز
استعمال ہوتا تھا۔"تابوت سکینہ ڈیڑھ گز چوڑا اور اتنا ہی اونچا (.79m3)cm73*cm78*130cm) یا (27.93ft) 2.56*ft 2.56*ft4.27 ( ہے
اور اڑھائی گز لمبا ہے یعنی
انجیل کے مطابق اسکی لمبائی پونے
چار فٹ اور اونچائی سوا دو فٹ ہے ۔
یہ صندوق
شمشاد کی لکڑی سے بنا یا گیا ہے جوا ندر سے باہر تک سونے سے منڈھا ہے یہاں تک کے اسکا ڈھکن بھی سونے سے چھپا ہے جسپر دو پرندے بیٹھے ہیں۔اس تابوت سکینہ
یا صندوق کے بارے میں بہت زیادہ اختلاف رائے اوربہت سی روایات
ہیں کچھ مصدقہ روایات کے مطابق یہ حضرت آدم
علیہ السلام پر نازل ہوا تھا یعنی جنت سے
آپکے ساتھ ہی زمین پر اتارا گیا تھا اور تا مرگ آپکے پاس رہا پھر نسل در نسل بطور وراثت
یکے بعد از دیگر آپ کی اولاد
تک منتقل ہوتا رہا یہاں تک کے یہ حضرت یعقوب علیہ السلام تک
پہنچا اور پھر حضرت موسیٰ علیہ
السلام سے حضرت یوشع علیہ السلام کو
ملا اور آپ کے بعد بنی اسرائیل نے اس پر
قبضہ کر لیا بہت دلچسپ بات ہے کہ حضرت عیسیٰ
علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے حوالے سے اس تابوت کی منتقلی
کے ٹھوس شواہد یا کوئی تحریری نسخے
نہیں ملے لیکن میری رائے کے مطابق
یہ ایک لاکھ انبیاء کی میراث تھی
جو حضرت آدم علیہ السلام سے خاتم ﷺ
تک چلی جو اب خاتمﷺ کے نائب امام مہدی کے پاس ہے جو دنیا کو اسکی رونمائی کروائیں گے اور طالوت کی بادشاہت کی طرح یہ تابوت
آپکی بھی امامت کی گواہی دے گا جسپر تقریباً تمام مذہب و مکاتب فکر کے
لوگوں کا اجماع ہے۔حضرت بلقیس حضرت
سلیما ن علیہ السلام سے شادی کے
بعد اپنے وطن ایکسم گئی وہاں آپ کےہاںایک
خوبصورت بیٹے کی پیدائش ہوئی انکا نام
ابن حکیم رکھا جب آپ بائیس سال کے
ہوئے تو اپنے والد سے ملنے یروشلم گئےجب آپ نے واپسی کا قصد کیا تو حضرت سلیما ن علیہ السلام نے آپ کے ساتھ کچھ
درباری اور تابوت سکینہ بھی روانا
کیا ۹۵۵ قبل مسیح حضرت بلقیس کی وفات کے بعد آپ بادشاہ بنے تاریخ آپ کو مینلک اول کے نام سے جانتی ہے آپ نہایت بردبار ،عقل مند اور طاقتور بادشاہ تھے
آپ نے اپنی سلطنت کو خوب ترقی دی اور دو ہزار سال تک تابوت سکینہ کے وارث رہے۔ ابن عباس احادیث اہل بیت اور بعض مفسرین سے منقول کرتے
ہیں کہ یہ تابوت وہی صندوق تھا جس میں
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے انہیں رکھ کر دریا کے سپرد کر دیا تھا فرعون کے کارندوں نے جب اسے نکال کر دربار میں
پیش کیا تو حضرت آسیہ نے جھٹ بچے کو گو لے لیا اور تابوت جو کا تو ں فرعون کے
خزانے میں چلا گیا جو بعد میں بنی اسرائیل
کے ہاتھ آیا تو وہ اسے محترم و متبرک قرار دینے لگے ۔ کیونکہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں یہ صندوق حضرت یوشع علیہ السلام کو
سپرد کر ر دیا تو بنی اسرائیل کی نگاہ میں
اس کی حرمت اوربڑھ گئی۔ (تفسیر جلالین)
کتب سےاستفادہ کرتے کرتے سی ڈیز
کا بھی خیال آیا جس میں "انفو پیڈیا" (7) نامی سی ڈی میں انجیل سمیت تقریباً تمام آسمانی
کتابوں کےحوالے موجودہیں اس لئے اسکو اپنے مقالے کا حصہ بنانا لازمی سمجھتی ہوں۔
1-"عبرانی
میں اردن ہب رِت(موجودہ اردن ہبرت) کو بائبل میں مقدس کہا گیا جس میں پتھر کی لوحیں جن پر دس احکام
تھے۔ہارون کا عصا اور من تھا عہد کا صندوق خدا کے
حکم کے مطابق بنایا گیا جس کی رویا موسیٰ کوکوہ سیناپر ملی"۔( خروج۲۵
: ۱۰-۹ )
اس بات سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ اس صندوق وہ دس
احکامات موجود تھے جو اللہ پاک نے
نازل کیے تھے اور کوہ سینا پر حضرت موسٰی کو اس کے زریعے احکامات ملے۔
2-"خدا
موسیٰ سے عہد کے صندوق پر بنے دو کروبیوں میں سے باتیں کرتا تھا"۔(خروج ۲۵:۲۲
)
یہ ان کروبیوں کا زکر ہے جو تابوت سکینہ کے ڈھکن پر بنی ہوئی ہیں۔
3-"عہد
کا صندوق اور ہیکل اسرائیل کا جمال
تھا"۔(نوحہ ۱:۲)
یعنی یہ بات
بلکل واضح ہوگئی کہ وہ صندوق اور ہیکل سلیمانی
بنی اسرائیل کی طاقت و خوبصورتی کا سبب ہیں۔
4-" کچھ قومیں کہتیں ہیں کہ پہلے صندوق موسٰی
اورپھر بعدمیں بغلی ایل نے بنایا تھا۔جب کاہن عہد کے صندوق کودریائے یردن میں لے
گئے تو دریا دو حصے ہوگیا"۔(یشوع
۳:۱۵-۶ (،۴:۸-۷ )
یہا ں اس
واقعے کا زکر ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو فرعون کے چنگل سے بچا کرلے گئے تھے اور خداوند کریم نے دریائے نیل میں ان کے لئے راستہ بنا یا تھا۔
تابوت سکینہ
اور ہیکل سلیمانی کا ربط ؛
جو صندوق ایک نہ دو بلکے پورے ایک لاکھ چوبیس
ہزار انبیاء کی میراث رہا ہو تو اسکی عظمت کتنی بلند ہوگی تو اس صندوق کورکھنےکےلئے
بھی اتنی بلند مرتبہ اور برکت والی جگہ کی ضرورت تھی جسکے لئے خود خداوند
کریم اپنے کلام بلاغت میں ارشاد فرماتا ہے کہ؛
" پاک ہے
وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گئی جس کے آس
پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم نے اسےاپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائے
یقیناً اللہ تعا لیٰ ہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے"۔(8)
جیسا کہ
خداوندکریم نے اس زمین کو برکت والا کہا تو ثابت بھی کر دیا اس زمین کو ابنیاء کی سر زمین کا نام دے دیا اور اس جگہ کو انبیاء کی پیدائش گاہ بنا دیا جن میں حضرت یعقوب علیہ
السلام ، حضرت یوسف علیہ السلام ،حضرت داؤد
علیہ السلام ، حضرت سلیمان علیہ السلام ،حضرت
یحییٰ علیہ السلام ،حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور دیگر ابنیا ء
اس پاک زمین میں پیدا ہوئے یا باہر سے آکر آباد
ہوئے اس زمین میں ان گنت انبیاءکے مدفن بھی ہیں یہ مقام فلسطین ہے جو موجودہ اسرائیل کہلاتا ہے۔
حضرت یقوب علیہ السلام نے حکم خدا وندی کے
مطابق مسجد بیت المقدس (مسجد اقصیٰ) کی بنیاد ڈالی اسی وجہ سے بیت المقدس آباد ہواآپ کا نام
اسرائیل علیہ السلام بھی تھا آپ کی ہی
اولاد بنی اسرائیل کہلاتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے برسوں صرائے سینا میں پھرنے کے بعد اپنی قوم کے لئے ایک عبادت کا خیمہ بنایا یہ
۴۵فٹ لمبا،۵فٹ چوڑا اور ۱۵فٹ اونچا تھا اس میں قیام عبادت "عودسوز" اور
تابوت سکینہ کی جگہ تھی۔حضرت جالوت کے دور تک
یہودخیمے کا رخ کر کے عبادت کرتے جیسے یہ ان کا قبلہ ہو۔حضرت داؤد علیہ
السلام کا دور ۱۰۰۴قبل مسیح سے ۹۶۵ قبل مسیح ہے یعنی ۳۳ سال آپ نے خیمہ عبادت
کو بیت المقدس میں کوہ صیہون میں ایک جگہ مستقل طور پر نصب کردیا اس جگہ کا نام
"بیت ایل " یعنی اللہ کا گھر پڑ گیا اسی مقام پر خداوندکریم حضرت داؤد علیہ السلام سے ہمکلام ہوااس جگہ کا
نام حضرت داؤد علیہ السلام نے حیبرون رکھا
تھا۔حضرت سلیما ن علیہ السلام کا دور
۹۶۵قبل مسیح سے ۹۲۶قبل مسیح یعنی ۳۹سال (طوفان نوح کے ۱۰۴۸سال بعد) آپ نے اس خیمہ
عبادت کی جگہ"ہیکل "کی مستقل عمارت بنوائی جس میں
آپ نے جنات کی مدد لی اور اس میں
قیمتی پتھروں کو ترشوا کر لگوایا
جن میں یاقوت ،زمرد اور سونے چاندی کی
تختیوں کی دیواریں جن میں اعلیٰ درجے کے موتی لگے فیروزہ کا فرش،یاقوت کے ستون اور جواہرات کی جڑاؤ چھت تھی جن کی چمک اور روشنی اس قدر تھی کہ رات میں بھی روشنی کی ضرورت
نہ پڑتی تھی ایک مخصوص کمرہ
تابوت سکینہ کے لئے وقف ہوا جس کا
نام قدس رکھا ۔یہ عمارت ۲۰ سال میں ۹۸۸قبل مسیح میں مکمل ہوئی مگر حضرت سلیمان علیہ السلام کو
تعمیر کے آخری مراحل میں بشارت خداوندی
ہوئی کے آپ کی زندگی کے دن تمام ہو گئے ہیں تو آپ نے جنات سے اپنے لئے ایک شیشے کا
کمرا بنوایا اور اس میں جاکر اپنی
لاٹھی کے سہارے کھڑے ہو گئے تاکہ موت کے سبب آپ کا جسم زمین بوس نہ ہو اور جنات آپ کر زندہ جان کے تعمیر مکمل کریں۔
قرآن پاک میں خداوند کریم اس
کے بارے میں یوں فرماتا ہے؛ "کہ جب ہیکل سلیمانی کی تعمیر جنات نے مکمل کر لی تو اللہ کے حکم سے جس لاٹھی کے سہارے حضرت سلیمان کھڑے تھے اسے
دیمک نےکھا کر کھوکھلا کر دیااور وہ آپ کا بوجھ نہ سہار سکی اور آپ جو موت واقع
ہونے کے باوجود بھی اس کے سہارے کھڑے تھے گر گئے جس سے جنات و دیگر مخلوقات کو آپ
کی موت کا علم ہوا"۔(9)
تورات کے بیان
کے مطابق "اس کام پرستر ہزار
باربردار،اسّی ہزار سنگتراش،تین ہزار چھ سو ان کے نگران کار مقرر کئے گئے
تھے"۔(کتاب تواریخ)
حضرت سلیمان
کے ہیکل کا طول ۶۰ہاتھ،عرض ۲۰ہاتھ اور بلندی ۲۰ ہاتھ تھی "۔ (تورات مقدس
۲تواریخ۳:۲)
اردو دائرہ معارف
اسلامیہ جلد 16/1 میں لکھا ہے کہ ’’یروشلم کا عام عربی نام القدس ہے جسے قدیم
مصنفین عام طور پر بیت المقدس (بعض بیت المقدس) لکھتے ہیں، دراصل اس سے مراد ہیکل
(سلیمانی) تھا جو عبرانی بیت ہمدقش کا ترجمہ ہے لیکن بعد میں اس لفظ کا اطلاق تمام
شہر پر ہونے لگا- یہ مصنفین ایلیا کا لفظ بھی جو Aelia سے لیا گیا،
بکثرت استعمال کرتے ہیں- انہیں اس کا قدیم نام Jerusalem بھی معلوم تھا جسے وہ اور یشلم اور یسلم اور یشلم بھی لکھتے
ہیں-‘‘ کتاب مقدس (بائبل سوسائٹی) میں اسے یروشلم لکھا گیا ہے- ’’بیت المقدس‘‘ سے
مراد مبارک گھر‘‘ یا ایسا گھر ہے جس کے ذریعے سے گناہوں سے پاک ہوا جانا ہے- اقصی
عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی بہت دور کے ہیں- ایک صدی ق م میں جب رومیوں نے
یروشلم پر قبضہ کیا تو انہوں نے اسے ایلیا کا نام دیا تھا- مکہ مکرمہ سے بیت
المقدس کا فاصلہ تقریباً تیرہ سو کلو میٹر ہے- بیت لحم اور الخلیل بیت المقدس کے
جنوب جبکہ رام اللہ شمال میں واقع ہے- بیت المقدس پہاڑیوں پر آباد ہے- انہی میں سے
ایک پہاڑی کا نام کوہ صہیون جس پر مسجد اقصی اور قبۃ الصخرۃ واقع ہیں- کوہ صہیون
کے نام پر ہی یہودیوں کی عالمی تحریک صہیونیت قائم کی گئی"۔(10)
ہیکل سلیمانی کی تاریخ چار ہزار سال پرانی ہے
اور ان تمام سالوں میں اس کو دو
مرتبہ مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا باون بار حملہ ہوا اور چوالیس بار مختلف قوموں نے قبضہ کیا صرف اور صرف تابوت سکینہ
کی تلاش کے پیچھے۔ جس طرح زمین آسمان کا جوڑ ہے چاند سورج کا ساتھ ہے بلکل اسی
طرح تابوت سکینہ اور ہیکل سلیمانی کا جوڑ
ہےکیونکہ ہیکل کی تعمیر مکمل ہوتے ہی تابوت
سکینہ کو بہت زیادہ مذہبی احترام
کے ساتھ ہیکل میں منتقل کر دیا گیا جسکے سبب آج بھی یہودیوں کی سب سے اہم اور مقدس
عبادت گاہ ہے اورچونکہ اس کی تعمیر حضرت سلیمان نے کروائی اس
لئے اسکا نام ہیکل سلیمانی پڑ گیا۔واحد شہر
بیت المقدس جس کو اسرائیلی یروشلم کہتے ہیں تینوں مذاہب عیسائیوں،یہودیوںاور
مسلمانوں کے لئے مقدس و مقدم ہے کیونکہ یہ ہی تو مسلمانوں کا قبلہ اول ہے بہت
سےمورخین اور ماہر آثار قدیمہ کے مطابق
یہ تابوت آج بھی ہیکل سلیمانی میں موجود
ہے اس لئے انھوں نے فلسطین پر زبردستی کی جنگ
مصلت کر کے قبضہ کیا اور پھر اسکو
زیر زمین کھود کھود کر کھوکھلا کر دیا ہے
جسکے نتیجے میں موجودہ مسجد اقصیٰ/بیت المقدس ایک جھٹکے کے منتظر ہیں کیو نکہ زیر
زمین اس کی ایک ایک بنیاد کھدی ہوئی ہے۔
تابوت سکینہ کی اہمیت اور کھوج کا سبب؛
اب دماغ میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے آخر اس لکڑی
کے صندوق میں ایسا کیاہے جو یہودی دیوانہ
وار اسکی تلاش میں زمینی جونک و دیمک بنے
ہوئے ہیں ؟ایک صندوق جو ایک نبی سے دوسرے تک منتقل ہوتا آیا ہو اور اس کے اندر
انبیاء اپنی ذاتی و کراماتی اشیاء رکھتے ہوں اسی کے ساتھ ساتھ اس صندوق کو رکھنے کے
لئے ایسی سر زمین کا انتخاب ہو جسے خود خداوند کریم برکت والی زمین کہے جس
زمین کو انبیاء کی زمین کا نام ملے جو سب سےپاک و برتر مقام ہو اس تابوت کے رکھنے
کے مقام کو خود نبی تیار کروائیں خداوند
تعالیٰ اپنے کلام میں اسے دل کا سکون کہے ،مومن و ایمان والوں کی نشانیاں
بتائے اس صندوق کی اہمیت کیا بیان
ہوسکتی ہے یہ تو سمندر کو کوزے میں بھرنے کے مصداق ہوا
اسکی اہمیت تو لامحدود ہے تبھی آج دنیا بھر
کی اقوام خواہ وہ مسلم ہوں عیسائی یا یہودی اسکی جستجو اور
تلاش میں سرگرداں ہیں کیونکہ یہ صرف
ایک صندوق نہیں ہے یہ فتح وکامیابی
کی علامت ہے اس بات کو سمجھنے یا جاننے کے
لئے کہ یہ اتنا اہم
کیوں ہے اور آج تین ہزار سال بعد
بھی اسکی تلاش کیوں جاری ہے تو تھوڑا اسکا پس منظر جاننا ہوگا۔
جب نبی در نبی یہ تابوت منتقل ہوتے ہوتے خداوند کریم نے بنی
اسرائیل کو عطا کیا تو ان کے لئے اس کو ان
کے لئے اپنا انعام بنا دیا یہ تابوت ان کے لئے فتح ،نصرت،کامیابی،کامرانی عظمت
و بلندی ،رحمت و برکت کی علامت بن گیا جسے
وہ اپنے قبلہ کے طور پر بھی استعمال کرتے تھے۔اور اس میں انبیاء کے معجزاتی تبرکات بھی موجود تھے جن میں لوح قرآنی اور تورات، کوہ سینا پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو
دی گئی تختیاں یعنی
توراۃ کی تختیوں کے چند ٹکڑے ، کچھ من و سلویٰ اور وہ برتن بھی
تھا جس میں آسمانوں سے من و سلویٰ اترا کرتا تھا۔جسکا ذکر قرآن ِ پاک میں کچھ یوں
ہے؛
وانزلنا علیکم المن و السلویٰ "۔ "
ترجمہ کنزالایمان: "اور تم پر من اور سلویٰ
اتارا"۔(11)
اورحضرت یوسف علیہ السلام کا
کرتا،حضرت ہارون علیہ السلام
کی قبا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور
ان کی مقدس جوتیاں اور حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ، حضرت سلیمان علیہ السلام
کی انگوٹھی، ، اس کے علاوہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی صورتوں کے حلیے
وغیرہ سب سامان تھے غرضیکہ انبیاء بنی اسرائیل کے
بہت سے تبرکات موجود تھے۔
بحوالہ خروج ۲۵:۱۰
وبعد(صفحہ۵۴پر)
"A small portable box or chest: 3190 X 2188 X 2188 ft, made
of acacia wood, overlaid with gold inside and out. On its top were two cherubim
facing each other? This is the place where Yahweh meets Israel and reveals His
commandments. It contained the two tablets of stone which were thought to go
back to the Mosaic period, a vessel of manna and the rod of Aaron. It was
carried on the head of the column when the Hebrews traveled through the desert
and before the army in battle. After the settlement of the Israelites in Canaan
the ark was finally established at Shiloh, [Shiloh was 9 mi NNE of Bethel, in
the central mountain range.] It was taken into battle against Philistines, who
defeated Israel and captured the ark. It was finally placed in the temple of
Solomon."
"تابوتِ سکینہ یا عہد کا تابوت کیکر کی
لکڑی کا بنا ہوا ایک چھوٹا دستی طورپر قابلِ منتقلی بکس یا صندوقچہ جو پونے چار
ضرب سوا دو ضرب سوا دو فٹ کاتھا اور جس پر اندر اور باہر سونا جڑا ہواتھا۔ اس کے
اوپردو کروبی ایک دوسرے کی طرف منہ کیے بیٹھے تھے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ
اسرائیل سے ملاقات کرتا اور اپنے احکامات کا القا کرتا تھا۔ اس میں پتھر کی وہ دوا
لواح بھی موجود تھیں جن کے متعلق خیال کیا جاتا تھا کہ وہ عہدِ موسوی کا بقیہ ہیں
اور ایک ’مَنّ‘ کا برتن اور ہارون ؑ کا عصا بھی تھا۔ جب عبرانی لوگ صحرا میں سفر
کرتے تواُس وقت اس طرح لے جایا جاتا کہ یہ قطاروں سے آگے ہو اور جنگوں میں اِسے
فوج کے آگے آگے لے جایا جاتا تھا۔ اسرائیلیوں کے کنعان میں آباد ہو جانے کے بعد
تابوت کو بالآخر شیلوہ [یہ مرکزی پہاڑی سلسلے میں بیت ایل کے شمال شمال مشرق میں
نو میل کے فاصلے پر واقع تھا] کے مقام پر مستقل طور پر رکھ دیا گیا۔ اسے فلسطینیوں
کے خلاف جنگ میں لے جایا گیا جنھوں نے اسرائیل کو شکست دی اوراِس تابوت پر قبضہ کر
لیا۔ بالآخر اِسے ہیکلِ سلیمانی میں رکھ دیا گیا"۔
تفسیر الصاوی اورتفسیر روح البیان کے
مطابق" یہ بڑا ہی مقدس اور بابرکت صندوق تھا۔ بنی اسرائیل جب کفار سے جہاد
کرتے تھے اور کفار کے لشکروں کی کثرت اور ان کی شوکت دیکھ کر سہم جاتے اور ان کے
سینوں میں دل دھڑکنے لگتے تو وہ اس صندوق کو اپنے آگے رکھ لیتے تھے تو اس صندوق سے
ایسی رحمتوں اور برکتوں کا ظہور ہوتا تھا کہ مجاہدین کے دلوں میں سکون و اطمینان
کا سامان پیدا ہوجاتا تھا اور مجاہدین کے سینوں میں لرزتے ہوئے دل پتھر کی چٹانوں
سے زیادہ مضبوط ہوجاتے تھے۔ اورجس قدر صندوق آگے بڑھتا تھا آسمان سے نَصْرٌ مِّنَ
اللہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ کی بشارت عظمیٰ نازل ہوا کرتی اور فتح مبین حاصل ہوجایا
کرتی تھی۔بنی اسرائیل میں جب کوئی اختلاف پیدا ہوتا تھا تو لوگ اسی صندوق سے فیصلہ
کراتے تھے۔ صندوق سے فیصلہ کی آواز اور فتح کی بشارت سنی جاتی تھی۔ بنی اسرائیل اس
صندوق کو اپنے آگے رکھ کر اور اس کو وسیلہ بنا کر دعائیں مانگتے تھے تو ان کی
دعائیں مقبول ہوتی تھیں اور بلاؤں کی مصیبتیں اور وباؤں کی آفتیں ٹل جایا کرتی
تھیں۔ الغرض یہ صندوق بنی اسرائیل کے لئے تابوتِ سکینہ، برکت و رحمت کا خزینہ اور
نصرتِ خداوندی کے نزول کا نہایت مقدس اور بہترین ذریعہ تھا مگر جب بنی اسرائیل طرح
طرح کے گناہوں میں ملوث ہوگئے اور ان لوگوں میں معاصی و طغیان اور سرکشی و عصیان
کا دور دورہ ہو گیا تو ان کی بداعمالیوں کی نحوست سے ان پر خدا کا یہ غضب نازل
ہوگیا کہ قوم عمالقہ (جبارین )کے کفار نے
ایک لشکر جرار کے ساتھ ان لوگوں پر حملہ کردیا، ان کافروں نے بنی اسرائیل کا قتل
عام کر کے ان کی بستیوں کو تاخت و تاراج کرڈالا۔ عمارتوں کو توڑ پھوڑ کر سارے شہر
کو تہس نہس کرڈالا، اور اس متبرک صندوق کو بھی اٹھا کر لے گئے۔ اس مقدس تبرک کو
نجاستوں کے کوڑے خانہ میں پھینک دیا۔ لیکن اس بے ادبی کا قوم عمالقہ پر یہ وبال
پڑا کہ یہ لوگ طرح طرح کی بیماریوں اور بلاؤں مبتلا کر دیئے گئے۔ چنانچہ قوم
عمالقہ کے پانچ شہر بالکل برباد اور ویران ہو گئے۔ یہاں تک کہ ان کافروں کو یقین
ہو گیا کہ یہ صندوق رحمت کی بے ادبی کا عذاب ہم پر پڑ گیا ہے تو ان کافروں کی
آنکھیں کھل گئیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے اس مقدس صندوق کو ایک بیل گاڑی پر لاد کر
بیلوں کو بنی اسرائیل کی بستیوں کی طرف ہانک دیا"۔(12)
پھر اللہ تعالیٰ نے چار فرشتوں کو
مقرر فرما دیا جو اس مبارک صندوق کو بنی اسرائیل کے نبی حضرت شموئیل علیہ السلام کی خدمت میں لائے۔ اس طرح پھر بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی نعمت
دوبارہ ان کو مل گئی۔ اور یہ صندوق ٹھیک اس وقت حضرت شموئیل علیہ السلام کے پاس پہنچا، جب کہ حضرت شموئیل علیہ السلام نے طالوت کو بادشاہ بنا دیا تھا۔ اور
بنی اسرائیل طالوت کی بادشاہی تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے اور یہی شرط ٹھہری تھی
کہ مقدس صندوق آجائے تو ہم طالوت کی بادشاہی تسلیم کرلیں گے۔ چنانچہ صندوق آگیا
اور بنی اسرائیل طالوت کی بادشاہی پر رضامند ہو گئے"۔(13)
دراصل بنی اسرائیل جن کا نظام یوں
چلتا تھا کہ ہمیشہ ان لوگوں میں ایک بادشاہ ہوتا تھا۔ جو ملکی نظام چلاتا تھا اور
ایک نبی ہوتا تھا جو نظام شریعت اور دینی امور کی ہدایت و رہنمائی کیا کرتا تھا
اور یوں دستور چلا آتا تھا کہ بادشاہی یہود ابن یعقوب کے خاندان میں رہتی تھی اور نبوت لادی بن یعقوب
کے خاندان کا طرہءامتیاز تھا۔ حضرت شموئیل علیہ السلام جب نبوت سے سرفراز مقرر ہوئے تو ان کے
زمانے میں کوئی بادشاہ نہیں تھا تو بنی اسرائیل نے آپ سے درخواست کی کہ آپ کسی کو
ہمارا بادشاہ بنا دیجئے ۔
"حضرت شموئیل علیہ السلام نے یہ دیکھا کہ وہ اپنی بیماری کی
تشخیص کرچکے ہیں اور اب انہیں ایک طبیب کی ضرورت ہے۔گویا وہ اپنی پسماندگی کے راز
سے واقف ہوچکے ہیں۔ حضرت شموئیل علیہ السلام نے بارگاہِ الہیٰ کارخ کیا
اور قوم کی خواہش کو اس کے حضور پیش کیا،وحی ہوئی: "میں نے طالوت کو
اُن کی سربراہی کے لئے منتخب کیا
ہے"۔(14)
طالوت ایک بلند قامت ،تنو مند اور خوبصورت مرد
تھے،وہ مضبوط اور قوی اعصاب کے مالک تھے،
روحانی طور پر بھی بہت زیرک ، دانشمند اور صاحب ِتدبیر تھے ۔ بعض لوگ
انکےنام" طالوت" کوان کے طولانی
قد کا سبب قرار دیتے تھےان تمام صفات کے باوجود
وہ مشہور نہیں تھے ایک گمنام قبیلے سے
تعلق رکھتے تھے اور مالی طور پر ایک زراعت پیشہ شخص سے زیادہ حیثیت نہ رکھتے تھے۔ بنی اسرائیل
کے نزدیک تو حسب ونسب اور ثروت کے حوالے
سے کئی خصوصیات فرمانرواکے لئے ضروری تھیں
اور ان میں سے کوئی چیز بھی طالوت میں دیکھائی نہ دیتی تھی اس انتخاب و تقرر پر وہ
بہت حیران و پریشان تھے کیونکہ ان کے
عقیدے کے بر خلاف وہ نہ
تو لادی کی اولاد میں سے تھے جن سے نبی ہوتے تھےنہ یوسف اور یہودا
کے خاندان سے جو حکمرانی کرتےتھے بلکہ وہ بنیامین کے گمنام خاندان سے تھےاور مالی طور پربھی تہی دست تھے
۔بنی اسرائیل نے اعتراض کیا کہ ہم
ان سے زیادہ حقدار ہیں۔
حضرت شموئیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ خدا نے اسے تم پرحکمرانی کی خاطر اس لئے چنا ہے کہ وہ دانائی و مردانگی اور علم سے مالامال ہے اور جسمانی طاقت کے لحاظ
سے قوی اورصاحبِ قدرت ہے۔یعنی اشتباہ کا شکار ہو
اور رہبری کی بنیادی شرائط کو بھولے بیٹھے ہو۔اسیِ طرح قرآن نے قیادت کے
لئے پیش کردہ ان شرائط کی نفی کردی کیونکہ ان کی پیش کردہ دونوں شرائط میں سے
کوئ بھی حقیقی امتیازاورخصوصیت
نہیں کہلاسکتی۔آباؤ اجداد کی شخصیت اور
دولت و ثروت دونوں اعتباری اور
خارج از ذات امتیازات ہیں۔لیکن علم و
دانش اور جسمانی طا قت
ذات میں داخل امتیازات و خصوصیات ہیں۔ پھر بھی بنی اسرائیل نے کسی خدائی
علامت یا نشانی کا مطالبہ کیا۔حضرت
شموئیل علیہ السلام نے انہیں صندوق ِ عہد دوبارہ ملنے کی نشانی دی جو ان کے لئے
سکون و اطمینان کا باعث تھا۔یہ وہ ہی وقت تھا جب
قوم عمالقہ نے پریشان ہوکر تابوت
کو بیل پر سوار کروا کر اپنے شہر سے نکال دیا
اور فرشتے اسے ہنکا کر بنی اسرائیل تک لے آئے۔
"ایک مشرک قوم عمالقہ سے بنی اسرائیل نے ایسی شکست
کھائی کہ عمالقہ نے ' تابوت سکینہ' پر بھی
قبضہ کرلیا، جب اللہ تعالیٰ کو اس کی واپسی منظور ہوئی تو ایسا ہوا کہ جہاں
کہیں تابوت رکھتے،وبا پھوٹ پڑی،مجبوراً خود انھوں نے تابوت کو ایک بیل گاڑی پر رکھ
کر بنی اسرائیل کی طرف ہنکا دیا: چنانچہ کسی
جنگ بغیر تابوت ودبارہ بنی اسرائیل
کی طرف واپس آگیا"۔ (15)
نیوز ون
چینل کے ایک پروگرام "اینڈ آف
ٹائم" جس کے میزبان" ڈاکٹر شاہد مسعود " (16)نےآسمانی و زمینی کتابوں کے حوالے سے بتایا کہ
"موسیٰ
کو ہدایت کی گئی کہ صندوق کو مسح کرے۔(خروج ۳۰
:۲۶-۲۳ )
کے مطابق:Grant
Jetfrey” Author/ Archaeological Researcher"
"جب
انھوں نے عہد کے صندوق کو اپنے مندر میں رکھا
تو اگلی صبح دیکھا گیا تو اس مندر کے دیوتا کا بت عہد کے صندوق کے سامنے
گرگیااور دوسری جگہ بھی ایسا ہی ہوا ۔ان کے بت عہد کے صندوق کے آگے گر جاتے اور سات مہینے تک فلسطین میں
رہنے کے بعد انہوں نے عہد کے صندوق کو واپس اسرائیل بھیج دیا۔۵۸۶ ق م میں بنو کد نضر نے ہیکل کو تباہ کردیا اور سب
کچھ لے گیا مگر عہد کے صندوق کو نہ لے جا سکا ۔کیونکہ لادیوں کاہنوں نے
اسے ہیکل کے نیچےغارمیں چھپادیا تھا"۔
By “Harun
Yahya “Prophet Moses (PBUH) and the Ark of the Covenant
(An Invite to the Truth)
۔1۔
اس فلم کے مطابق ۵۸۷ق م سے تابوت لاپتہ
ہے ۔2۔ یہ وہی تابوت ہے جس میں حضرت موسیٰ کی والدہ نے فرعون کے خوف سے ایک تابوت میں رکھ کر دریا کے سپرد کیا
تھا۔3۔ حضرت سلیمان نے ہیکل سلیمانی کی
تعمیر کروائی جس پر رومن شہنشاہ نے قبضہ
کر لیا۔4۔ تاریخ دان اس بات پر متفق ہیں کے۱۷ اے ڈی میں رومن جنرل ٹائیٹس نےیئکل سے تابوت نکال کر
روم پہنچا دیا تھا۔5۔۵۸۷ق م اور ۷۰ اے ڈی کے بعد تابوت دوبارہ نہیں دیکھا۔
اس دستاویزی فلم کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ تینوں مذاہب
کا ہیکل و تابوت کو اہم سمجھنے کا
نظریہ واضح ہوتا ہے۔
1۔ یہودیوں کا یہ ماننا ہے کہ تابوت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ ظاہر ہونے پر انکے پاس آجائے گا اسکی وہ ہزاروں سال سے تلاش
میں ہیں اور پھر ساری دنیا پر ان کی حکومت
ہوگی۔
2۔عیسائی یہ کہتے ہیں کہ
یہ تابوت قیامت اور ظہور حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے جڑا ہے یہ سب یروشلم میں ہوگا۔
3۔مسلمانوں کا ایمان ہے کہ یہ ان کا قبلہ اول ہے اور تابوت
لے کے امام مہدی ظاہر ہونگے اور تمام مذاہب کی اغلاط درست کر کے اسلام کا بول بالا
کریں گے۔(17)
ہیکل سلیمانی کے اندر ایک اور کمرہ نما عمارت بھی تعمیر کی گئی
تھی جسے ’’قدس ‘‘کا نام دیا گیا تھاجہاں ایک پردہ کے پیچھے محراب تھی جس میں تابوت
سکینہ کو رکھا گیا تھا۔ بنی اسرائیل کے مذہبی رہنمائوں میں یہ رواج تھا کہ وہ ہر
سال ایک مقررہ تاریخ میں اپنی باری پر تنہا قدس میں پردے کے پیچھے اس محراب میں
داخل ہو کر تابوت سکینہ اور اس میں موجود چیزوں کی صفائی کرتے تھے اور اس مقدس
محراب میں عبادت اور دعائیں کرتے تھے۔ یہی وہ محراب ہےجہاں حضرت زکریا علیہ السلام
کو اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی صورت میں نیک فرزند کی بڑھاپے میں
خوشخبری دی تھی۔بنی اسرائیل کے لئے یہ قبلہ کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ یہ
مسلمانوں کا بھی قبلہ اول رہا ہے
تابوت سکینہ نہ صرف یہودی مزہب میں بہت اہمیت کا حامل ہے
اور اسے انتہائ مقدس سمجھا جاتا ہے بلکہ عیسائیت میں بھی یہ اہمیت کا حامل ہے اور
اسکا زکر انکی کتابوں میں بھی ملتا ہے یہودیوں اور عیسائیوں کے نظریے کے مطابق
تابوت سکینہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداکے کہنے پر بنایا تھا اور اس میں وہ
پتھر کی لوحیں لاکر رکھیں تھیں جو انکو خدا نے کوہ سینا پر دی تھیں اور جن میں
یہودی مزہب کی تعلیمات بیان کی گئ تھی یہ
بہت مقدس تابوت شمار کیا جاتا تھا اورہمیشہ مزہبی رہنما اسکو اٹھایا کرتے تھے اور
اسکی حفاظت کے لئے فوج کا ایک دستہ بھی ہمیشہ ساتھ رہتا تھا۔
"جب
بنی اسرائیل کی بد اعمالیاںپھر سے بہت زیادہ بڑھ گئیں تو ان پر خدا کی طرف سے یہ
عذاب آیا کہ بخت نصر بابلی ایک کافر بادشاہ نے بہت بڑی فوج کے ساتھ بیت المقدس پر
حملہ کر دیا اور شہر کے ایک لاکھ باشندوں کو قتل کر دیا اور ایک لاکھ کو ملک شام
میں ادھر ادھر بکھیر کر آباد کر دیا اور ایک لاکھ کو گرفتار کر کے لونڈی غلام بنا
لیا۔ حضرت عزیز علیہ السلام بھی انہیں قیدیوں میں تھے۔ اس کے بعد اس کافر بادشاہ
نے پورے شہر بیت المقدس کو توڑ پھوڑ کر مسمار کر دیا اور بالکل ویران بنا
ڈالا"۔(18)
بخت نصر کون تھا ؟
"قوم عما لقہ کا ایک لڑکا ان کے بت ‘
نصر ‘ کے پاس لا وارث پڑا ہوا ملا چونکہ اس کے باپ کا نام کسی کو نہیں معلوم تھا،
اس لئے لوگوں نے اس کا بخت نصر (نصر کا بیٹا )رکھ دیا۔ خدا کی شان کہ یہ لڑکا بڑا
ہو کر کہر سف بادشاہ کی طرف سے سلطنت بابل پر گورنر مقرر ہو گیا پھر یہ خود دنیا
کا بہت بڑا بادشاہ ہو گیا"
۔(19)
بخت
نصر کی تباہی کے بعد آج تک اس تابوت کا صحیح سے پتہ نہ لگ سکااصل وجہ اس تابوت
کھوج نکالنے کی یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں اس تابوت کی حیثیت ایک پرچم اور شعار سے بڑھ کر تھی۔اسے
کھوج کر وہ اپنی عظمت رفتہ کی یاد تازہ کرنا چایتے ہیں۔اس لئے وہ اسکی کھوج میں
ہر متوقع جگہ کو کھودے دے رہے ہیں اور یہودی کا دعویٰ ہے کہ جس جگہ مسجد اقصیٰ واقع ہے وہاں
قدس اور ہیکل سلیمانی تھے،ہیکل سلیمانی کی ایک بار پھر تعمیر کیلئے ان کی کوششیں
جاری ہیں اور مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے کی مذموم کوششیں بھی سامنے آتی رہتی
ہیں۔مقدس تبرکات کی تلاش کے نام پر مسجد اقصیٰ کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیا گیا
ہے اور وہاں کئی سرنگیں بنا دی گئی ہیں ۔یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے
دور میں جن پتھروں سے ہیکل سلیمانی تعمیر کی گئی تھی وہ اسی جگہ زمین میں دفن ہیں اور
انکی تلاش کے بعد دوبارہ سے ہیکل سلیمانی انہیں پتھروں سے تعمیر کی جائے گی۔
مسلمان کیلئے یہ جگہ اس لئے مقدس ہے کہ یہ ان کا قبلہ اول ہونے کے ساتھ ساتھ مسجد
اقصیٰ کا مقام بھی ہے جہاں حضور ﷺ نے معراج کے موقع پر آسمان پر جانے سے پہلے
مسجد اقصیٰ میں تمام انبیا اور رسولوں کی امامت کروائی تھی ۔یہودی ہیکل کی ایک بچ
جانے والی پس ماندہ دیوار میں واقع دروازے کے متعلق عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ قیامت
سے قبل ان کے آخری نبی اوربادشاہ کی واپسی کا راستہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب اس
دروازے سے ان کا بادشاہ نکلے گا تو اس کے پیچھے تمام مردے اٹھ کھڑے ہوں گے، جبکہ
اسلامی تعلیمات کے مطابق قیامت کے قریب دجال کا ظہور ہو گا اور تمام دنیا کے یہودی
اس کی بادشاہت اور نبوت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گے ۔
یہودیوں کے بقول۷۰ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے
جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آکر رویا کرتے تھے- اسی لیے اسے دیوار گریہ کہا
جاتاہے۔ اسرائیل اپنی کھوئی ہوئی عظمت اور سلطنت
واپس لینے کی بھر پور تیاری کررہا ہے ہر اسرائیلی کے گھر میں ایک نقشہ آویزاں ہے
جس پر گریٹر اسرائیل گلوب پر نمایاں ہے جس پر عراق، شام، آدھا سعودی عرب اور پورا
مصر اور اردن شامل ہے اور دوسرا ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور وہاں پر تابوت سکینہ کا
قیام جس کیلئے یہودی مورخین نے پیش گوئیاں کی ہیں۔ یہودیوںکا خیال ہے کہ مسیح الدجال
اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک تابوت سکینہ کو اس کے اصل مقام پر رکھ نہ دیا جائے
اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان کے نزدیک اس کا اصلی مقام وہاں ہے جہاں آج مسجد اقصیٰ
قائم ہے ۔بار بار مسجد اقصیٰ پر حملے کی وجہ یہی نظر آتی ہے مسجد غائب کریں گے تو
تابوت سکینہ کا چبوترہ تیار کرینگے تاریخ قدیم سے ان کا عقیدہ ہے کہ یہ ہمارا مقدر
کا ستار ہے۔ مقام لاپر ائیر پورٹ کے علاوہ اہم فوجی اڈہ بھی ہے جس کے اردگرد وہ
کثرت کے ساتھ غرقد کے درخت مذہبی فریضہ سمجھ کر کاشت کررہے ہیں اس کی وجہ سرکار دو
عالم ﷺکی ذات بابرکات ہے۔ آپ نے فرمایا
تھا مقام لاپر آخری جنگ ہو گی جس میں شجر و حجر مسلمان مجاہدوں کو یہودیوں کی
مخبری کرینگے ۔سوائے شجر غرقد کے کیونکہ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ محمد ﷺ نے جو کہا
ہے وہ غلط نہیں ہو سکتا لہذا وہ اس تیزی کے ساتھ گرقد کی آبیاری کررہے ہیں کہ غرقد
کی دیواریں بن جائیں اس لئے فوجی ائیر فیلڈ اور غرقد کا درخت یہ مقام لا کا طرہ
امتیاز ہے۔ یہودیوں نے سرکاری طور پر غرقد کے درخت کو قومی اور مذہبی پہچان دے دی
ہم مانیں یا نہ مانیں یہودی ہمارے نبی کے فرمان کو مان کر اپنی سلطنت کو وسیع اور
جان بچانے کیلئے غرقد کی آبیاری کر چکے ہیں لیکن وہ یہ بھول چکے ہیں کہ مشہت ایزدی
نے امام مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شکل ان کی تباہی کا سامان تیار کررکھا
ہے۔
کیونکہ
بنی
اسرائیل کے اصلیت تو یہ ہے کہ وہ بہت سے
نبیوں کےقاتل ہیں جن میں ان کے اپنے قبیلہ کے حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ
السلام
بھی
شامل ہیں ۔ حضرت عیسی ٰ علیہ السلام بھی
اسی قبیلہ سے تھے ۔ ان کو بھی قتل کرنا چاہا مگر اللہ نے اُنہیں بچالیا اور اّن کا
کوئی ہم شکل سولی پر چڑھا دیا گیا ۔ خلق خدا کو بھی بنی اسرائیل بہت اذیّت پہنچاتے
رہے۔اسکا ذکر قرآن میں ہےکیونکہ یہ تاریخی کتاب نہیں جس کا مطلب محض تاریخ بیان
کرنا ہو ، بلکہ قرآن کریم کتاب اللہ اور کلام اللہ ہے یہ کتابِ ہدایت ہے اس میں اصول زندگی ہیں اور ان پہ عمل کرنے کی
تاکید کی گئی ہے اورسزا اور جزا کا ذکر کیا گیا ہے ۔ اور جہاں جہاں خداوند کریم نے
بنی نوع انسان اور مسلمانوں کو سمجھنے کی خاطر ضروری سمجھا وہاں وہاں پچھلی قوموں
کا ذکر کیا ہے جس میںسب ذیادہ بنی اسرائیل کا ہے اور انکے فتنہ و فساد کا ذکر ہے۔
یہ ہر حال میں ناشکرے تھے۔ خداوند کریم نے
ان کے لئیے آسمانوں سے من و سلوٰی جیسی نعمت اتاری یہ اس سے بھی اکتا گئے ۔ اور
اپنے رب سے بھی معاذ اللہ ٹھٹھا کرنے سے باز نہ آئے۔تاریخ میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ
بنی اسرائیل (یہود) ناشکرے اور شرارتی لوگ رہے ہیں۔ مطلب اور ضرورت پڑنے پر یہ
عیسائیوں کے ساتھ گرجوں میں عیسائی بن کر عبادت بھی کر لیں گے اور مسلمانوں کے
ساتھ مل کر مسلمان بن کر نمازیں بھی پڑھ لیں گے اور نیز کسی بھی مذہب کا لبادہ آسانی
سے اوڑھ لیں گے۔ اور تب تک اوڑھیں رکھیں گے جب تک اس معاشرے یا سوسائٹی کو اندر سے
کمزور کر کے اس پہ غالب نہیں آجاتے۔ اور نتیجتاً وہاں سے ملک بدر نہیں کیے جاتے۔
تاریخ میں کئی ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کسی بھی قوم کے
مذھب کی تحضیک کرنے سے باز نہیں آتے خواہ اس وقت غلامی کی ہی زندگی کیوں نہ گزار
رہے ہوں اور ان کی ننگی پیٹھ پہ کوڑے کیوں نہ پڑ رہے ہوں انکی عادت، سازش، فتنہ
اور فساد کی رہی ہے اور اس لئیے ہر قوم سے نکالے گئے ۔اسکی بنیادی وجہ وہ برتری کا
وہ خناس بھی ہے جو ان کے دماغوں میں بٹھا دیا گیا ہے کہ یہ (یہود) ہرقوم سے برتر
ہیں۔نوے فیصد یہودی خدا کے وجود پہ یقین نہیں رکھتے مگر جب اسرائیل کی بات ہو تو
سو فیصد اسرائیل کو خداد مانتے ہیں” یعنی اسرائیل کی وجہ سے انھیں خدا یاد آتا ہے۔
یہود نے فلسفہ گھڑ رکھا ہے کہ موجودہ فلسطین انکو خدا نے دیا تھا جس کو انہوں نے
پانچ ھزار سال پہلے یا کم کم یا زیادہ سال بعد ( اس بارے میں بھی یہود اختلاف
رکھتے ہیں) کھو دیا تھا اور اب پھر وہ واپس اپنے وطن لوٹ رہے ہیں ۔ اس میں ان کی
مرضی کے ساتھ خداوند کریم کا فیصلہ بھی
شامل ہے جسکا ذکر قرآنِ پاک میں کچھ یوں
ہے؛
" اور اس کے
بعد بنی اسرائیل سے کہہ دیا کہ اب زمین میں آباد ہوجاؤ پھر جب آخرت کے وعدے کا وقت
آجائے گا تو ہم تم سب کو سمیٹ کر لے آئیں گے"۔(20)
یعنی یہ اسی
دور کا آغاز ہے آیت کے مطابق جب آخری دور آئے گا تو یہودی ارضِ مقدس میں
لائے جائیں گے جہاں سے ان کو نکالا گیا تھا
ان کے شر وغرور کی وجہ سے ۔ جس طرح
قرآن کریم میں انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے کہ انسان باقی
ماندہ مخلوق سے افضل ہے اور جانوروں کو بابرداری اور خوراک لئیے استعمال میں لا
سکتا ہے اسی طرح یہود کی کتاب ُتالمُود، جو بمشکل آپ کو کہیں نظر آئیگی اسمیں انکا
فلسفہ حیات نہائیت خطرناک ہے ۔ جس میں یہ
نمبر 1): اپنے آپ
کو اشرف النسل قرار دیتیتے ہیں ۔ اور دنیا کی ہر نسل سے اپنے آپ کو افضل سمجھتے
ہیں۔
نمبر2): کہ ساری
دنیا اللہ نے انکے ( یہود) کے لئیے بنائی ہے ۔ یہ ساری کائینات یہود کی ہے۔ اسمیں
موجود سب چرند پرند یہود کی ملکیت ہیں۔
نمر 3): اور اس کائینات
پہ حکومت کرنے کا حق صرف اور صرف بنی اسرائیل کا ہے اور اس حق کو پانے کے لئیے
کوئی سا بھی حربہ جائز ہے(21)
کوئی بھی فلسطینی اس بات کی تصدیق
کرے گا کہ فلسطینیوں کے بقو انھیں اس یہودی سے اتنا خطرہ نہیں جو کہے کہ میں یہودی
ہوں اور تم فلسظینیوں کو دیکھ لوں گا بلکہ اس یہودی سے بقول فلسطینیوں کے ہوشیار
رہتے ہیں جو یہودی اپنے آپ کو اچھا یہودی بنا کر پیش کرے۔ اور فلسطینیوں کے حق میں
ہو، کیونکہ یہ ناممکن اور سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے اور ایسے یہودی سے فلسطینی
کہتے ہیں ہوشیار رہنا چایہے ۔ فلسطین میں۔۱۹۲۰
، ۱۹۲۱ ،
۱۹۲۹ ، اور ۱۹۳۶ میں عربوں کی طرف سے
یہودیوں کے نکل مکانی اور اس علاقے میں آ مد کے خلاف پر تشدد مظاہرے ہوئے لیکن یہ
سلسلہ جاری رہا ۔ ۱۹۴۷میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرار داد کے زریعے
فلسطین کو تقسیم کر کے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست قائم کرنے کا اعلان کر دیا
۔ برطانیہ نے اس علاقے سے ۱۹۴۸میں اپنی افواج واپس بلا لیں اور ۱۴مئی ۱۹۴۸کو
اسرائیل کی آ زاد حکومت کے قیام کا اعلان کر دیا گیا ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس
کے ساتھ ہی فلسطین ریاست بھی قائم کر دی جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ درحققیت اقوام
متحدہ ہی اسلام کے خلاف ہے اور اپنی طاقت کے زریعے ہمیشہ اسلام کو نقصان پہنچانے
کی ناپاک کوشش کرتا ہے اسکا ایک بڑا سبب
مسلمانوں کا آپسی تفرقہ اور یہودیوں کا ایکا ہے۔
موجودہ مقام اور دعویٰ ملکیت؛
بخت نصر کے حملے کے بعد ۔۵۸۷ق م اور ۷۰ اے ڈی کے بعد تابوت سکینہ
دوبارہ نہیں دیکھا گیا جیسا کے یہ تو ہم
جان ہی چکے ہیں کے تابوت کی تلاش کے نام
پر آدھے سے زیادہ فلسطین ادھڑ چکا ہے۔بہت
ہی مشہور امریکن ماہر آثار قدیمہ" ران وائٹ" کے مطابق ۱۹۷۸ میں یروشلم کی
پرانی فصیل کی کھدائی میں یہ مل گیا تھا اور ان کی ہی دوسری تحقیق کی مطابق یہ مشرق وسطیٰ میں ہی موجود ہے۔
Rabbi Yedhuda
Get:”Chief Rabbi of the Western Wall” :
کے مطابق ۱۹۸۱میں تین اسرائیلی ربی
ہیکل کے پوشیدہ دروازے سے ایک کمرے میں داخل ہوئے جو ہیکل کے تہہ خانے میں
تھا۔انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ عہدکا صندوق اپنی تمام چیزوں کے ہمراہ اس
کمرے میں موجود ہے ۔ اسرائیلی حکومت نے
اس بات کی تصدیق کردی ہے"۔
اور نظریےکے مطابق۱۹۸۱ ہیکل اول کی کھدائی کے نتیجے میں تابوت مل
گیا تھا اور اسے نکال کرکسی خفیہ جگہ منتقل کر دیا گیا تھا۔جبکہ کھدائی
کرنے والے یہودیوں کا یہ کہنا ہے کہ وہ
اس صندوق کے بلکل نزدیک پہنچ تھے۔لیکن اسرائیلی گورنمنٹ نے مسلمانوںاور
عیسائیوں کے دباؤمیں آکر کھدائی پر پابندی لگا دی تھی۔اس لئے وہ
تابوت پانے میں ناکام رہے۔
"انجیل" کے مطابق اسکو جبل
نیبو (جبل مقام النبی موسیٰ) میں دفن کیا
گیا ہے ، جنوبی افریقہ کے لوگوں کے
مطابق انکے بزرگوں نے زمبابوے کے پہاڑی سلسلے میں کسی گہرے غار میں دفن کردیا تھا ،کچھ محققّین کی تان مسجد اقصیٰ پر ہی آکر
ٹوٹتی ہے کہ یہ ونہی ہے اسکے مطابق سو فیصد کوئی نہیں کہہ سکتا کیونکہ کافی جدا جدا روایات موجود ہیں اٹیلین،برطانیہ ،آئرلینڈ، فرانسی،مصری حد یہ ہے
کہ ساؤتھ امریکہ کے لوگ بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ تابوت انکے بزرگوں کو کہیں نہ
کہیں کسی نہ کسی انداز میں ملا اور انکے بزرگوں نے اسے چھپادیا۔بہت سو کا یہ دعویٰ
ہے کہ یہ مل گیا ہے اسی موضوع پر"یوٹیوب" پر ایک معلوماتی ویڈیو "آرک آف کویننٹ فونڈڈ "یعنی تابوت
سکینہ مل گیا کے نام سے موجود ہے مگر سب
ماہرینں آثارِ قدیمہ اس پر متفق نہیں ہیں۔بعض روایات کے مطابق یا تو اسے
اہلِ بابل لے گئے تھے یاپھر اسے آسمانوں پر اٹھا لیا گیا۔
Chuck Missler Author of “The Coming Temple”
کے مطابق "اتھو پیا کے آرتھوڈکس چرچ نے یہ دعویٰ کیا ہے کے عہد کا صندوق آکسم میں ہے۔صندوق ہماری مقدسہ
مریم دختر صیون کے چر چ میں انتظامیہ کی حفاضت میں ہے اور مذہبی تہوار پر استعمال
کیا گیا"۔
اسطرح کے اور دعویٰ کے مطابق چرچ آف
آرلیڈی میری آف زائن جو ۱۹۶۵
میں بنا ہے جو اصل تو نہیں پر اسکو ملکہ برطانیہ نے ۱۹۶۵ میں' اصل چرچ کے
برابر میں جو چوتھی صدی میں بنایا گیا تھا اور اب بلکل کھنڈر بن چکا تھا' بنوایا اس موجودی گرجا گھر میں
انجیل کا ایک بہت قدیمی نسخہ بھی موجود ہے اور وہاںآج بھی تابوت سکینہ"چیپل آف ٹیبلٹ" "
ایتھوپیا کے شہر آکسم" میں موجود ہے جب وہاں کے سب سے بڑے پادری کی موت کا
وقت نزدیک آرہا ہوتا ہے تو وہ اسکی زیارت کرتا ہےاور اپنا جانشین مقرر کرتا ہے اور
تابوت کی زیارت کے فوراً بعد اسکی موت ہوجاتی ہے۔ایتھوپیا کے تمام گرجا
گھروںمیں تابوت سکینہ کی شبیہ رکھی ہوئی ہیں اور عام لوگ عام حالت میں اسکی
زیارت نہیں کر سکتے۔
کچھ یہودی علماء کی رائے ہے کہ Qumranمیں دریائے لوط کے پاس دریائے مردار جورڈن میں
موجود ہے بجائے ترکی کے جبکہ ترکی میں بہت سے قدرتی غار موجود ہیں اور ان ہی غاروں میں خداوند کریم کا ایک اور معجزہ اصحابِ کہف بھی
موجود ہیں۔
حضرت محمدﷺ کی احدیث کے مطابق تابوت Antiochترکی کا کسی مقام میں موجودہے آخِر زمانہ میں اما م مہدی (جن کو دنیا مجاہد قل کے نام سے جانتی ہے) کے
ظہور کے ساتھ وہ صندوق
آپکے ہاتھوں کھلے گا اور وہ آسمانی مذیہب
کی اغلاط دور فرمائیں گے جو آسمانی کتابوں میں تبدیلیاں کر دیں گئی ہیں اسکو صحیح
کریں گے۔
اسی حوالے سے کچھ مزید
روایات انگریزی میں موجود ہیں؛
"۔1The Mehdi will
remove the Ark of the covenant from lake Tiberias".(22)
۔2Nu`aym Ibn-e- Hammad narrated from Sulayman
Ibn-e-Isa that he said, “It has reached me that at the hands of the Mehdi, the
Taboot e Sakina (the ark of covenant) will appear from the lake of Tabariyyah ,
until it is carried and placed before him in Bait-ul –Muqaddas. The reason he
will be known as the Mehdi is that he
will go to one of the mountains in Sham. From there he will unearth the (true)
book of the Torah and bring forth evidence against the Jews”. (23)
۔3Al Suyuti wrote,
“ the reason he will be known as the Mehdi is that he will show the way to a
hidden thing we will bring the Ark of the covenant to light from a place called
Antioch (modern day Turkey)”.
۔4Related by
Sulaiman Ibn Isa: “ I was informed that the Ark of the Covenant will emerge
from the lake of Tiberias (in Palestine) through the efforts of Imam al Mehdi.
It will be placed before him at the sacred house in Jerusalem”.(24)
۔5“The Mehdi
will have as many helpers as the number of these who crossed the river with
soul”.(25)
ان
حوالوں سے بھی یہ بات مستحکم ہو جاتی ہے کہ تابوت کہا ہے اور
کون لائے گا؟
تابوت سکینہ قرآنی تفاسیر کی روشنی میں؛
بمطابق تفسیرِ
مظہری: " تابوت بروزن
فعلوت۔ توب سے مشتق ہے جس کے معنی رجوع کے ہیں۔ اور اسے تابوت اس لئے
کہتے ہیں کہ جو چیز اس میں سے نکالی جاتی تھی وہ پھر واپس اسی میں چلی آتی
تھی"۔(25)
بمطابق تفسیرِابنِ کثیر: " سکینہ ایک سونے کا طشت تھا جس میں
انبیاء کے دِل دھوئے جاتے تھے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملا تھا اور جس میں آپ نے توراۃ
کی تختیاں رکھی تھیں، کسی نے کہا ہے اس کا منہ بھی تھا جیسے انسان کا منہ ہوتا ہے
اور روح بھی تھی، ہاتھ بھی تھا، دو سر تھے، دو پر تھے اور دُم بھی تھی، وہب کہتے
یہں مردہ بلی کا سر تھا جب وہ تابوت میں بولتا تو انہیں نصرت کا یقین ہو جاتا اور
لڑائی فتح ہو جاتی، یہ قول بھی ہے کہ یہ ایک روح تھی اللہ کی طرف سے جب کبھی بنی
اسرائیل میں کوئی اختلاف پڑتا یا کسی بات کی اطلاع نہ ہوتی تو وہ کہہ دیا کرتی
تھی۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کے ورثے کے باقی حصے سے مراد لکڑی اور توراۃ کی
تختیاں اون اور کچھ ان کے کپڑے اور جوتی ہیں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ فرشتے
آسمان و زمین کے درمیان اس تابوت کو اٹھائے ہوئے سب لوگوں کے سامنے لائے اور حضرت
طالوت بادشاہ کے سامنے لا رکھا، اس تابوت کو ان کے ہاں دیکھ کر انہیں نبی کی نبوت
اور طالوت کی بادشاہت کا یقین ہو گیا، یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ گائے کے اوپر لایا
گیا، بعض کہتے ہیں کہ کفار نے جب یہودیوں پر غلبہ پایا تو تابوت سکینہ کو ان سے
چھین لیا اور اریحا میں لے گئے اور اپنے بڑے بت کے نیچے رکھ دیا جب اللہ کو اسے
واپس بنی اسرائیل تک پہنچانا تھا، تب وہ کفار صبح کو جب بت خانے میں گئے تو دیکھا
بت نیچے ہے اور تابوت اوپر ہے، انہں نے پھر بت کو اوپر کر دیا لیکن دوسری صبح
دیکھا کہ پھر وہی معاملہ ہے انہوں نے پھر بت کو اوپر کر دیا، صبح جو گئے تو دیکھا
بت ایک طرف ٹوٹا پھوٹا پڑا ہے، تو یقین ہو گیا کہ یہ قدرت کے کرشمے ہیں چنانچہ انہوں
نے تابوت کو یہاں سے لے جا کر کسی اور چھوٹی سی بستی میں رکھ دیا، وہاں ایک وبائی
بیماری پھیلی، آخر بنی اسرائیل کی ایک عورت نے جو وہاں قید تھی، اس نے کہا کہ اسے
واپس بنی اسرائیل پہنچا دو تو تمہیں اس سے نجات ملے گی، ان لوگوں نے دو گائیوں پر
تابوت کو رکھ کر بنی اسرائیل کے شہر کی طرف بھیج دیا، شہر کے قریب پہنچ کر گائیں
تو رسیاں تڑوا کر بھاگ گئیں اور تابوت وہیں رہا جسے بنی اسرائیل لے آئے، بعض کہتے
ہیں دو نوجوان اسے پہنچا گئے واللہ اعلم، (لیکن الفاظ قرآن میں یہ موجود ہیں کہ
اسے فرشتے اٹھا لائیں گے (مترجم) یہ بھی کہا گیا کہ ہے کہ فلسطین کی بستیوں میں سے
ایک بستی میں تھا جس کا نام ازدوہ تھا۔ پھر فرماتا ہے میری نبوت کی دلیل اور طالوت
کی بادشاہت کی دلیل یہ بھی ہے کہ تابوت فرشتے پہنچا جائیں گے، اگر تمہیں اللہ
عزوجل اور قیامت پر ایمان ہو"۔(26)
بمطابق تفسیرِ عثمانی: " بنی اسرائیل میں
ایک صندوق چلا آتا تھا اس میں تبرکات تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام وغیرہ انبیائے بنی اسرائیل اس صندوق کو
لڑائی میں آگے رکھتے اللہ اس کی برکت سے فتح دیتا جب جالوت غالب آیا ان پر تو یہ
صندوق بھی وہ لے گیا تھا جب اللہ تعالیٰ کو صندوق کا پہنچانا منظور ہوا تو یہ کہا
کہ وہ کافر جہاں صندوق رکھتے وہیں وبا اور بلا آتی پانچ شہر ویران ہوگئے ناچار ہو
کر دو بیلوں پر اس کو لاد کر ہانک دیا فرشتے بیلوں کو ہانک کر طالوت کے دروازے پر
پہنچا گئے بنی اسرائیل اس نشانی کو دیکھ کر طالوت کی بادشاہت پر یقین لائے اور طالُوت
نے جالوت پر فوج کشی کی اور موسم نہایت گرم تھا"۔(27)
بمطابق تفسیرِ الصاوی: " پھر اللہ تعالیٰ نے چار فرشتوں کو
مقرر فرما دیا جو اس مبارک صندوق کو بنی اسرائیل کے نبی حضرت شمویل علیہ السلام کی
خدمت میں لائے۔ اس طرح پھر بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی نعمت دوبارہ ان کو مل گئی۔
اور یہ صندوق ٹھیک اس وقت حضرت شمویل علیہ السلام کے پاس پہنچا، جب کہ حضرت شمویل
علیہ السلام نے طالوت کو بادشاہ بنا دیا تھا۔ اور بنی اسرائیل طالوت کی بادشاہی
تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے اور یہی شرط ٹھہری تھی کہ مقدس صندوق آجائے تو ہم
طالوت کی بادشاہی تسلیم کرلیں گے۔ چنانچہ صندوق آگیا اور بنی اسرائیل طالوت کی
بادشاہی پر رضامند ہو گئے"۔(28)
بمطابق تفسیرِ روح البیان: " اس مقدس صندوق میں حضرت موسیٰ
علیہ السلام کا عصا اور ان کی مقدس جوتیاں اور حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ،
حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی، توراۃ کی تختیوں کے چند ٹکڑے ،کچھ من و
سلویٰ، اس کے علاوہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی صورتوں کے حلیے وغیرہ سب
سامان تھے"۔(29)
بمطابق تفسیرِ نمونہ: "جب صندوق عہد فلسطین کے بت
پرستوں کے ہاتھ لگا اور وہ اسے اپنے بت خانے میں لے گئے اسکے بعد وہ بہت سی مصیبتوں اور ابتلاؤں کا شکار ہو گئے
تو ان میں سے بعض کہنے لگے کہ یہ سب کچھ
صندوقِ عہد کےآثار میں سے ہے لہٰذا انہوں نے طے کر لیا کہ اسے اپنے شہر اور علاقے
سے باہر بھیج دیں گے۔کوئی شخص اسے باہر لے جانے کو تیار نہ ہوا۔مجبوراً دو بیل
جوتے گئے اور صندوقِ عہد کو باندھ کے بیلوں کو بیابان میں جاکر چھوڑ دیاگیا ۔اتفاق
سے یہ واقع ٹھیک اسوقت رونما ہوا جب طالوت کو بنی اسرائیل کا فرمانروا بنایا
گیا"۔(30)
بمطابق تفسیرِ المیزان؛"
آیت مبارکہ کے ابتدائی جملہ کے سیاق کی
مانند اس امر کی دلیل ہے کہ بنی اسرائیل
نے اپنے نبی سے پوچھا کہ آپ کے اس بیان کہ(خدا نے تمہارے لئے طالوت کو بادشاہ بنا کر
بھیجا ہے) کے سچ اور امر واقعہ کے مطابق ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ تو اسکے جواب میں
انھوں نے کہا کہ استابوت میں تمہارے لئے ثبوت اور نشانی موجود ہے بشرطیکہ تم ایمان
لانے والے بنو"۔(29)
بمطابق تفسیرِ جلالین؛"اس تابوت میں
حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کے تبرکات تھے، اس تابوت کو ان کے دشمن عمالقہ
چھین کرلے گئے تھے اللہ تعالیٰ نے نشانی کے طور پر یہ تابوت فرشتوں کے ذریعہ حضرت
طالوت کے دروازہ پر پہنچا دیا جسے دیکھ کر بنی اسرائیل بہت خوش ہوئے اور من جانب
اللہ طالوت کی بادشاہت کی نشانی بھی سمجھا اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس تابوت کو ان
کی فتح و شکست کا سبب قرار دیا"۔(31)
خلاصہِ کلام؛
1۔ میری نظر میں
حاصلِ کلام یا خلاصہِ کلام یہ ہی ہے کہ خداوند کریم چاہے تو ایک بے جان لکڑی کے
تابوت کو اتنا افضل کر دے کے اپنی خلقت کے
لئے باعث عزت،افتخار،رحمت، برکت،کامیابی وکامرانی بنا دے،رب سے رابطے کا زریعہ
بنادے،چین و سکون کاسبب بنادے اور پھر جس کو وہ خود سکون کی علامت کہے اسی کو بے
سکونی کا سبب بنا دے کے چار ہزار سال گزرنے کے بعد بھی چین و سکون نہ ملے۔اس لئے
ذندگی کا اولین شعار رب کی فرما برداری ہونا چائیے۔
2۔جب خداوند کریم انعام دینے پر آتا ہے تو معمولی لکڑی کے صندوق
میں رحمت و برکت نازل کر دیتا ہے
جیسےاس نے ان لوگوں کے کھانے کیلئے آسمان سے دو کھانے
اتارے۔ ایک کا نام ‘من‘ اور دوسرے کا نام ‘سلویٰ‘ تھا۔ من بالکل سفید شہد کی طرح
ایک حلوہ تھا یا سفید رنگ کی شہد ہی تھی جو روزانہ آسمان سے بارش کی طرح برستی تھی
اور سلویٰ پکی ہوئی بٹیریں تھیں جو دکھنی ہوا کے ساتھ آسمان سے نازل ہوا کرتی تھیں
اور جب عذاب دینے
پر آئےتو قوم عمالقہ
پر یہ وبال پڑا کہ یہ لوگ طرح طرح کی بیماریوں اور بلاؤں مبتلا کر دیئے گئے۔
چنانچہ قوم عمالقہ کے پانچ شہر بالکل برباد اور ویران ہو گئے۔ اور بنی اسرائیل کی
طرح جن کو قرآن میں لعنت وملامت کا موضوع
بنا دیاہے۔
3۔انبیاء خداوند
کریم کی مخلو ق اعظم و افضل ہیں ان کی اور ان سے وابستہ، انکی استعما ل کی ہوئی ،
ان سے مس ہوئی ہر شے کی عزت و حرمت ہم پر لازم ہے خواہ وہ زندہ ہوں یا دنیا سے رخصت کر گئے ہوں اگر ہم نے ایسا نا کیا
تو قوم عمالقہ اور قوم بنی اسرائیل (جو
کئی ابنیاء کی قاتل) کی طرح نامراد اور رب کی لعنت کےسزاوار ہو جائیں گے۔
4۔بنی اسرائیل پر رب کی خاص رحمتیں تھیں جیسے ہی انھوں نے خود کو اعلیٰ سمجھنےکا آغاز کیاانکے
زوال کا آغاز کچھ یوں ہوااول تو ان پا ایک مفلس و گمنام حکمران طالوت کو ان پر نا فذ کر کے انکا بڑائی کا غرور
توڑادوم انکی نافرمانی کے نتیجے میں ایک بے نام و نشان لاوارث
بچے بخت نصرکو
ا نکا نام و نشان مٹانے پر مامور کیا۔ اسی
میں دوسرا نقطہ بھی موجود ہے خداوند کریم
جسے چاہے بلندی دے اور جسے چاہے
پستی یعنی ذرے کو آفتاب بنا دے سب اسکی رضا پر ہے۔
5۔ آباؤ اجداد کی شخصیت
اور دولت و ثروت دونوں
ہوں نہ ہوں لیکن علم و دانش اور
جسمانی طا قت جیسی خصوصیات
ضرور ہوں تاکہ ایک بھر پور اور با صلاحیت حکمران کے سبب قوم
بھی حکمران کی پیرو کار ہو ہر جانب علم کا بول بالا ہو مذید یہ کے عالم
مالدار سے افضل ہے۔اس کی مثال عرب اور
چینی قوم ہیں ایک جاہل ترین قوم دوسری افیم کے نشے میں ڈوبی قوم مگر جیسے
ہی علم
کا دامن تھاما دنیا بھر کی بادشاہی
مل گئی۔
6۔
ایک اہم نقطہ کے انبیاء سے وابستہ اشیاء کی شبیہ بھی بنائی جا سکتی ہے اور وہ اصل
جتنی ہی محترم ہوتی ہیں کیونکہ وہ انبیاء
سے منسوب ہوتی ہیں۔
7-تابوت
کی تلاش کا جنون عبادت و مذہبی عقیدے
کےنام پر دھوکہ ہے یہ عبادت سے بڑھ کر کچھ
ہے جسکے پیچھے پوری دنیا پرحکمرانی اور اپنی
افضلیت ثابت کرنے کا خواب ہے۔(جو
پورا نہ ہو پائے گا)
8۔سب
سے آخری بات تابوت موجود ضرور ہےمگرہیکل
میں نہیں ہے اس دور کے بادشاہ یعنی امام مہدی کے ساتھ ہی ظاہر ہوگا اور آیت ِ خداوندی کے مطابق بادشاہِ وقت کی گاہی دے گا ۔(تقریباً تمام
ادیان و مسالک اس نقطے پر متفق ہیں)
حوالہ
جات؛
1-Movie ,Indiana Jones and The Raiders of The Lost Ark,) Para mount Pictur, 1981) Gulf Western Company
2۔اوکسفرڈ
ابتدائی انگریزی اردو لغت (کراچی،اوکسفرڈ
یونیورسٹی پریس،۲۰۰۰) ب , Rص
۲۹۸
3۔ القرآن
: ۲۴۸/۲
4۔ فیروز
اللغات اردوحبیبی( لاہور،فیروز سنز اینڈ
کمپنی) ب ت، ص۱۲۸
5۔ الطبا
طبائی،سید محمد حسین ، تفسیر المیزان (لاہور،الغدیر اکیڈمی،۲۰۱۱) ب ۲،ص۶۵۵
6۔ علی محمد،
انوار البیان فی حل لغات القرآن (مکتبہ سید احمد شہید لاہور )جلد۱،ص ۲۰۴، سورہ
البقرہ،آیت۲۴۸
7۔ انفو پیڈیا ،سی ڈی (جے سی ٹی وی)
8۔ القرآن : ۱۷/۲
9۔ القرآن :
۳۴/ ۱۳ – ۱۴
10۔
اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 16/1 م
11۔ القرآن : ۵۷/۲
12۔ تفسیر الصاوی،ج۱،ص۲۰۹۔تفسیر روح البیان،ج۱، ص۳۸۵۔پ۲، البقرۃ۲۴۷
13۔
تفسیر الصاوی،ج۱،ص۲۰۹ ، پ۲، البقرۃ۲۴۷
14۔شیرازی ،ناصر مکارم تفسیر نمونہ (مصباح القرآن
ٹرسٹ،لاہور،۲۰۰۵ )ج ۲،ص۱۳۴
15۔مفاتیح الغیب : ۴۹۲/۳
16۔ میزبان :شاہد مسعود،اینڈآف ٹائم (نیوز ون چینل)
قسط ۲
17-Harun Yahya,Prophet Moses (PBUH) and the Ark of the Covenant
,An Invite to the Truth (PGS Gulf Inc)
18۔سیُو
ہاروی، محمد حفظِ الرحمٰن ،قصصُ القرآن(لاہور،مکتبہ رحمانیہ) جلد ۲
19۔ تفسیر جمل، ج۱،ص۳۲۱ ، البقرۃ: ۲۵۹
20۔ القرآن :۱۰۴/۱۷
۔21http://www.faizeraza.net/forum/showthread.php?t=1173
Categories: تاریخ اسلام, دین و مذہب, قرآن و تفسیر القرآن
22. (Iqd al-Durar fi
Akbar, al-Imam al-Muntadhar by Shaikh Jamaluddin Yusuf al-
Darmishqi, p.51-a )
۔23
Suyuti,al-Hawili`l
Fatawa, )11,81)
۔ 24( Ibn
Hammad transmitted in al-Fitan(1:360#1050); and Sheikh Suyuti copied it in al
Hawili`l Fatawa (11:83)
۔25( Al Burhan
fi Alamat al Mehdi Akhir ul Zaman, P.57)
26۔ پانی پتی،قاضی ثنا ءاللہ، تفسیر مظہری (ضیاء القرآن پبلیکیشنز)
27۔ امام ابن خطیر،الاظہری ،محمد کرم شاہ ،تفسیر ابن کثیر(ضیاء
القرآبن پبلیشر ) ج ۲،ص۳۵۵
28۔ عثمانی ،شبیر احمد ، تفسیر عثمانی (دارالاشاعت اردو بازار کراچی ) ج 1،سورۃ البقرہ، آیت ۲۴۸
29۔
تفسیر الصاوی،ج۱،ص
۲۰۹
30۔ تفسیر روح البیان،ج۱،ص۳۸۶،پ۲،البقرۃ: ۲۴۸
31 شیرازی ،ناصر
مکارم تفسیر نمونہ (مصباح القرآن ٹرسٹ،لاہور،۲۰۰۵ ) ،ج ۲،ص۱۴۰
32۔ الطبا
طبائی،سید محمد حسین ، تفسیر المیزان (لاہور،الغدیر اکیڈمی،۲۰۱۱) ب ۲،ص۶۶۱
63 Comments
Mashallah
ReplyDeleteReally informative
MASHAallah mola AP ko salamat rkhe or
DeleteMila AP ki knowledge Orr research MN izafaa kre 🤲
Mashallah great informative
ReplyDeleteMashallah very informative research.
ReplyDeleteMaShaAllah,...👌💯💞 Zabardast Kafi research ki gyi hai 1k chhoty sy mozu py. Bohat Mehnat ki gyi hai, Maula aap ko aise hi Ilm k baary main parhne aur parhaane ki Toufique Atta Farmaae Ameen....🤲🤲
ReplyDeleteI'm Ali Gohar, and Ali Murad is Elder Brother...
ReplyDeleteI'm Ali Gohar and Ali Murad is my Elder Brother.
ReplyDeleteMashAllah ❤️
ReplyDeleteGood work , Keep it up
MashaAllah great research very informative. Keep it up👍✍
ReplyDeleteMam your blog is knowledgeable but you should picturize in the blog then the reader can get more interest in the Reading.
ReplyDeleteMashallah keep up the great work.
ReplyDeleteMashallah great
ReplyDeleteMashaAllah Bhabi great research very informative. Keep it up👍✍
ReplyDeleteMashAllah Jiyen 💟
ReplyDeleteMashallah maim zbrdast
ReplyDeletemasha allah mam
ReplyDeleteMashaAllah
ReplyDeleteماشاءاللہ میڈم آپ بہت اچھی اور بہت اچھی ریسرچ ہے ہمیں بہت نالج ملی مولا آپ کو بہت سے اچھی اسکالر بنائیں
ReplyDeleteThanks alot for sharing such a valuable n knowledgeable blog with us
ReplyDeleteLooking for more blogs from your side
ReplyDeleteMashAllah. Knowledgeable
ReplyDeleteMashallah allah mazeed taufeeqat may izafa farmye ameen
ReplyDeleteGorgeous the very informative and knowledgeable research keep it up
ReplyDeleteGreat work Madm my Allah pak succeeded you in every step of life
ReplyDeleteماشاءالله بھترين ڪم آ
ReplyDeleteMashallah
ReplyDeleteGood work keep it
Great work Medam Inshallah one you will success in this target ❤️🤲🤲🤲
ReplyDeleteMasha Allah mam Allah pak Apse mazeed deen ka kam le your obedient student Abbas form bs2
ReplyDeleteMasha Allah mam great work
ReplyDeleteMasha Allah, all the best work has been done. It took a lot of hard work on the subject that you have done.
ReplyDeleteTamam Behtreen Mam 🤎 mOula Salamat rakhy And iLim men Izafa Ata Farmae AMEEN SUM AMEEN 🤎 Moula Ap ko Ajar de 🤎🤲
ReplyDeleteMashaAllah good research mam keep it up....
ReplyDeleteYou nailed it
ReplyDeleteLooking forward for more blogs from your side
Mashallah mam zabrdast
ReplyDeleteMashAllah
ReplyDeleteThanks alot Ma'am for great awarness keep going.
Best Wishes
Very informative, keep it going. Seeking for more info from your side. Great work. 🥇
ReplyDeleteThanks alot for sharing such a valuable and knowledgeable blog .
ReplyDeleteMashallah mam tamam bhtreen mam Allah Pak AP ko har Manzil MN qamiyab Kary
ReplyDeleteMashAllah Tamam Behtreen..
ReplyDeleteMola Ap Ko khush Rakhe ❤
It's great work and informative material for all of us.
ReplyDeleteMashallah Jazakallah.
Mashallah very good research.
ReplyDeleteVery very informative, MashaAllah.
ReplyDeleteVery informative
ReplyDeleteVery informative and good work Ma Sha Allah....❤🔥
ReplyDeleteخدا و بی بی (سہ) آپ کا لکھا قبول فرمائے.! اور دنیا و آخرت میں عزتیں و بلند مرتبہ عطا فرمائے آمین 🌺
ReplyDeleteMa Sha Allah ...
ReplyDeleteGreat work done , full of informative knowledge , may Allah give you more strength to work hard on other issues as well ..
Regards ..
So splendid material you have collected.
ReplyDeleteIt's a Good effort, especially for those who have no time to read books. It's a lot material collected from different books. Good job.
ReplyDeleteماشاءاللہ بہت خوب اللہ تعالی آپ کو مزید تحقیقاتی میدان میں کام کرنے کی توفیق عطافرمائے۔
ReplyDeleteRich information with references. Appreciated
ReplyDeleteماشاءاللہ خواھر بہت بہترین
ReplyDeleteخدا آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے آمین
ماشاءاللہ بہت خوب
ReplyDeleteMashaAllah great search work done on this topic
ReplyDeleteReally great scholarly thought provoking article. Amazing.
ReplyDeleteالسلام علیکم اس تابوت سکینہ میں تبرکات آل موسی و آل ہارون کے تبرکات یعنی ان کی استعمال ہوئ چیزیں تھی
ReplyDeleteحضرت موسی وحضرت ہارون علیہ سلام اللہ کے پیغمبر تھے
جو انسانیت کی بحلائ اس دنیا میں آے
ماشاءاللہ،بہت اچھا لکھاہے۔اللہ تعالیٰ آپ کو مزید علمی و تحقیقی میدان میں کام کرنے کی توفیق دے۔
ReplyDeleteتاریخ گواہ ہے کہ جاہ و حشم اور اقتدار کی ہوس نے انسان کو کبھی چین نہیں لینے دیا اور تابوت سکینہ کی تلاش کے پیچھےبھی لوگوں کی اس سے عقیدت سے زیادہ اپنی افضلیت کی دھاک اور اپنی پارسائی کا سکہ جماتے ہوئے حکومت کی خواہش ہے
ReplyDeleteاتنی خوبصورت اور معلوماتی تحریر پر میں آپ کو مبارکباد پیش کرتی ہوں اور دعا دیتی ہوں کہ ۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ"
ReplyDeleteThe Text is very informative and interesting and i appreciate the efforts which are taken for this, great work, keep it up..
ReplyDeleteMashallah, Very informative
ReplyDeletemashaAllah mam Keep it up veryy informative research..❤️
ReplyDeleteMashallah, Very informative
ReplyDeleteVery informative, much convinced owing to deep thoughts
ReplyDeleteMake Sure to Drop your valuable Feedback!